صوبوں کی جنگ

بدھ 17 اپریل 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چند سال پہلے خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی حکومت تھی اور وفاق میں  ن لیگ کی۔ عمران خان کے سر پر وزیر اعظم کا تاج ابھی سجا نہیں تھا۔  اس دور میں  انتشار اور  اختلاف کی سیاست عروج پر تھی۔ آئے روز یوں لگتا تھا کہ خیبر پختونخوا  کی جانب سے وفاق پر حملہ  ہوگا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا بھی۔ دونوں صوبوں کی سرحد پر جنگ کا سماں بن گیا۔ اطراف کی پولیس ایک دوسرے پر گولیاں برسانے لگی، ناحق خون بہنے لگا، صوبائیت کے جذبات ابھرنے لگے، وفاق کا تصور بکھرنے لگا، بھائی بھائی سے جھگڑنے لگا۔

ان معرکوں میں تحریک انصاف نے  نام  تو کمایا مگر وفاق کی اکائی پر زد آنے لگی۔ دو قومی نظریے کی حقانیت پر بات ہونے لگی۔ لسانی اور گروہی اختلاف سامنے آنے لگے۔ پاکستانی تشخص اور تصور پر زک آنے لگی۔ ایسا پہلے بھی ہوا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ سے ایسی آوازیں اٹھنے لگی تھیں جو سماعتوں کو چیر دیتی تھیں۔

نوشکی کے واقعے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں بھی ایک لاوا پک رہا ہے جس کے بارے میں کم ہی لوگوں کو ادراک ہے۔ ان سب واقعات سے یوں لگتا ہے کہ وفاق کی اکائیاں ایک دوسرے ہی سے نبرد آزما ہیں۔ بسا اوقات یوں لگتا ہے جیسے چار بھائی  ایک دوسرے کے گریبان چاک کرتے ہوئے دنیا میں تماشا بنے ہوئے ہیں۔ مقابل ہونا اور مقابلہ کرنا کیا ایک سی کیفیات ہیں؟ اس بارے میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا چاہیے۔

صوبوں کے مابین مقابلے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ مقابلہ مثبت ہو۔ اگر یہ مقابلہ اپنے عوام کےحق کا ہو ۔ ان کی سہولیات کے لیے دوڑ کا ہو۔ یہ مقابلہ ضرور ہونا چاہیے۔ اس طرح کے مقابلے کی حوصلہ افزائی وفاق کو کرنی چاہیے۔ لیکن اختلاف کے موقع پر وفاق کو بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہیے، مظلوم اور دکھے دل کی داد رسی کرنی چاہیے اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے۔ مقابلے کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے بھی بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنا وفاق کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

اس وقت ملکی صورت حال ہمیشہ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ سیاسی حالات اس سے ابتر ہیں۔  ایک صوبے میں حکومت ن لیگ کی جواں سال قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرے صوبے میں پی ٹی آئی کے ان قائدین کی حکومت ہے جو کسی نہ کسی طرح سے نو مئی کے سانحے میں مطلوب تھے۔ سندھ اور بلوچستان پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ لیکن ان کے اندر بھی سیاسی تقسیم بہرحال موجود ہے۔ اس سیاسی منظر نامے میں اختلافات ذرا سی بات پر بھڑک سکتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں وہ سیاسی جماعتیں حکمران ہیں جو ایک دوسرے کے نظریات سے اختلاف کرتی ہیں۔ کہیں یہ اختلاف کم  ہے اور کہیں شدید ۔

اب وقت بدل گیا ہے۔ زمانہ دب گیا ہے۔ ملک گرداب میں ہے۔ ہم کسی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کوئی صوبہ اپنی الگ راجدھانی جمانے کی کوشش کرے گا تو تنہا رہ جائے گا۔ اب سب کو مل کر ایک عزم، ایک ارادے سے کام کرنا ہوگا۔ مقابلے کی فضا ہونی چاہیے مگر جنگ کی نہیں۔ اختلاف ہونا چاہیے مگر بنیاد سے انحراف نہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش ہونی چاہیے مگر کسی کو پیچھے چھوڑ جانے کی سعی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مثبت کاموں میں ایک دوسرے کی تقلید درکار ہے۔ منفیت سے انکار اس وقت، وقت کی پکار ہے۔ پچیس کروڑ لوگوں کا ہجوم اس وقت  چار اکائیوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ نہ یہ تعداد کم ہے نہ ان کی امیدیں کم ہیں۔

پنجاب میں ن لیگ کی وزیر اعلیٰ مریم نواز  کی حکومت کے آنے سے تھوڑے سے عرصے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ عثمان بزدار کے ’دور لیاقت‘ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو مدت بعد پتہ چلا ہے کہ حکومت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ریاست ماں کی طرح کس طرح پیش آتی ہے اور وزیر اعلیٰ کس طرح ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے۔

مریم نواز نے وہ سب کچھ چند ہی ہفتوں میں کیا جو پنجاب کے عوام کا برسوں سے خواب تھا۔ لوگ اب بھی بے یقینی کے عالم میں ہیں اس لیے کہ انہیں بھول گیا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، کوئی وزیر اعلیٰ ہو جو خود رمضان بازاروں میں جا کر ریٹ لسٹوں کو چیک کرے، تندوروں پر جا کر روٹی کی قیمت کی بابت دریافت کرے، غربت کے مارے کسانوں کے لیے کسان کارڈ کا اجرا ممکن بنائے، طلباء کے لیے وظائف کو یقینی بنائے، مستحقین کے لیے آسان قسطوں پر موٹر سائیکل فراہم کروائے، کاشتکاروں کے ٹیوب ویلوں کے لیے سولر پینل لگوائے، صوبے بھر میں صفائی کے نظام کو بہتر بنائے، دیگر شہروں میں میٹرو بس سروس کا اعلان کرے، اقلیتوں کے مسائل حل کروائے، مفلس بوڑھی خواتین کو گلے لگائے، اسپتالوں میں خواتین کو لمبی لمبی قطاروں کے عذاب سے نجات دلائے، معذور بچوں کی تعلیم کا بندوبست کروائے، اور اپنے صوبے کی خواتین کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے۔

مریم نواز نے یہ جو سب کچھ چند ماہ میں کیا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مریم نواز نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔ یہ ان کے ووٹر کا ان پر حق اور مریم نواز کا بطور وزیر اعلیٰ فرض تھا۔ اب خواہش یہی ہے کہ علی امین گنڈا پور اس میدان میں مریم نواز کا مقابلہ کریں، مراد علی شاہ یہاں مریم نواز سے آگے بڑھیں، سرفراز بگٹی یہاں مریم نواز کو پیچھے چھوڑ دیں۔

مقابلہ کرنا ہے تو ترقی کے میدان میں کریں۔ اپنے صوبے کے عوام کی خوشحالی کے میدان میں کریں۔ جنگ کرنی ہے تو اپنے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ فلاح کے کام کرنے میں کریں۔ وزیر اعلیٰ بننا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ پورے صوبے کے آپ نگران ہوتے ہیں۔ کروڑوں زندگیاں آپ پر انحصار کر رہی ہوتی ہیں۔ آپ ان زندگیوں کے محافظ ہوتے ہیں۔ خدارا ! ان زندگیوں میں ترقی اور خوشحالی کا رنگ بھریں، ان پر صوبائیت کی کالک نہ ملیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp