ماہرین فلکیات نے چاند کے ارتقا کے بارے میں ایک نئی حیرت انگیز دریافت کی ہے جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ تقریباً ساڑھے 4 ارب سال قبل وجود میں آیا تھا۔
سائنسدانوں چاند کے قریب واقع ٹائٹینیم سے بھرپور آتش فشاں چٹانوں کو بھی دریافت کیا ہے، جس نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا کہ یہ چٹانیں وہاں کیسے پہنچیں۔
جریدے نیچر جیو سائنس میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 4.2 ارب سال قبل زمین کا قدرتی مصنوعی سیارہ خود کو باہر لے آیا اور بالآخر اس کی سب سے بیرونی سطح بن گئی۔
ماہرین نے اپولو مشن کے ذریعے جمع کیے گئے چاند کی چٹان سے حاصل کیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا اور اس کے ذریعے انہوں نے چاند کی ساخت کے گرد گھومنے والے معمہ کو حل کر لیا۔
ایل پی ایل کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف جیف اینڈریوز ہنا نے ایک بیان میں کہا کہ چاند اندر کی طرف مڑ گیا ہے، لیکن چاند کے تاریخی مراحل کے دوران ہونے والے واقعات کی درست ترتیب پر روشنی ڈالنے کے لیے بہت کم جسمانی شواہد موجود ہیں۔ ماہرین نے بیسلٹک لاوا والے چٹان کے نمونوں میں ٹائٹینیم کے اعلیٰ ارتکاز کو بھی دریافت کیا۔
سیاروں کے مشاہدات میں چاند کے قریب واقع ٹائٹینیم سے بھرپور آتش فشاں چٹانوں کو بھی دکھایا گیا ہے، جس نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا کہ وہ وہاں کیسے پہنچے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کی ٹیم کا خیال تھا کہ جب چاند وجود میں آیا تو یہ ایک گرم میگما سمندر سے ڈھکا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا گیا اور بیرونی پرتیں جیسے کرسٹ اور مینٹل بن گئیں۔
تحقیق کے سربراہ وی گینگ لیانگ کا کہنا تھا کہ ‘چونکہ یہ بھاری معدنیات نیچے موجود مینٹل سے زیادہ گھنے ہوتے ہیں اس لیے یہ کشش ثقل میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور آپ توقع کر سکتے ہیں کہ یہ پرت چاند کے اندرونی حصے میں گہرائی میں ڈوب جائے گی۔‘