چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت میں پیشی کے موقع پر اس وقت عدالتی عملے سمیت سب کی دوڑیں لگ گئیں جب یہ بات سامنے آئی کہ عمران خان کی عدالتی حاضری والی فائل غائب ہوگئی۔ عمران خان کے وکیل یرسٹر گوہر علی خان اور پولیس افسر ایس پی سمیع اللہ اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے کہ فائل فلاں کے پاس ہے۔
عمران خان جب اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں پہنچے تو کارکنوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ اندر داخل ہوگئی اور نعرے بازی کی جانے لگی جس پر پولیس نے آنسو گیس کا استعمال شروع کردیا اور صورتحال گھمبیر ہوگئی۔ اس بگڑتے ہوئے حالات پر عمران خان کے وکلا نے عدالت سے کہا کہ عمران خان اب احاطہ عدالت میں آگئے ہیں مگر صورتحال بہت خراب ہے لہٰذا گاڑی میں ہی ان کی حاضری لے لی جائے۔
عمران خان کے وکلا کی درخواست پر سیشن عدالت کے جج ظفر اقبال نے عمران خان کو گاڑی میں ہی حاضری لگانے کی اجازت دے دی اور ایس پی سمیع ملک سمیت وکلا کو حاضری لگوانے کے لیے بھیجا مگر دھکم پیل میں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آسکا کہ دستخط ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔
فائل ہمارے پاس نہیں،ایس پی اور عمران خان کے وکیل کی عجیب منطق
حاضری لگوانے کے لیے بھیجے گئے ایس پی سمیع ملک اور عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان جب واپس کمرہ عدالت واپس پہنچے تو اس وقت عجیب صورتحال پیدا ہوگئی جب بیرسٹر گوہر اور سمیع ملک دونوں نے کہا کہ فائل ان کے پاس نہیں ہے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جب شیلنگ ہوئی تو ایس پی نے فائل مجھ سے لے لی تھی مگر جواب میں ایس پی سمیع ملک نے موقف اختیار کیا کہ گوہر علی خان نے فائل مجھے نہیں بلکہ شبلی فراز کو دی تھی اور مجھے تو ٹانگ میں چوٹ لگی ہے اور میں زخمی ہوگیا ہوں۔
عمران خان حاضری لگائے بغیر ہی جوڈیشل کمپلیکس سے روانہ ہوگئے، ذرائع
دوسری جانب ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ عمران خان عدالت سے حاضری لگائے بغیر ہی جوڈیشل کمپلیکس سے واپس روانہ ہوگئے اور دھکم پیل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فائل گم ہونے کا ڈرامہ رچایا گیا ہے کیونکہ عمران خان عدالت میں پیش ہی نہیں ہونا چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کر رکھا تھا اور جب وہ لاہور زمان پارک سے پیشی کے لیے چلے تو ان کے ساتھ کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اسلام آباد پہنچنے پر پی ٹی آئی کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور یوں وہ جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے سے ہی واپس لاہور روانہ ہوگئے اور انہیں 30 مارچ کو دوبارہ ذاتی حیثیت میں عدالت نے طلب کر رکھا ہے۔














