’جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی اور مَیں خستہ حال مکان کی چھت پر جِھلنگے سے پلنگ پر بغیر کسی ایسے بستر کے لیٹا تھا، جس پر خواب استراحت کے مزے لینے کا گمان بھی نہ گزر سکے۔ چاندنی رات تھی، چاند بھی پورا تھا، تارے جگمگا رہے تھے اور مَیں نانِ جویں کو ترسا ہُوا خالی شکم، فلم کے لیے گیت لکھنے کی ذہنی مزدوری میں مُبتلا تھا، کیونکہ بھوکے پیٹ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اِسی کیفیت میں وہ معرکہ آرا فلمی گیت تخلیق ہُوا:‘
چاندنی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں
تاروں سے کریں باتیں ،،،،،،، چاندنی راتیں
اس مقبولِ عام گیت کے خالق مشیر کاظمی 22 اپریل 1924 کو بنوڑ ضلع پٹیالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی تخلیقات کی بدولت آج (22 اپریل 2024) وہ ایک صدی کا سفر طے کر چکے ہیں۔ 100 برس کے مشیر کاظمی کی غزلیں، نظمیں، رثائی شاعری، ملی اور فلمی گیت انہیں تادیر زندہ رکھیں گے۔
مشیر کاظمی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستان کی پہلی اردو فلم ’دوپٹہ‘ سے کیا، جس کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ ملکۂ ترنم نور جہاں نے پی ٹی وی کے پروگرام ’سلور جوبلی‘ میں بتایا تھا کہ فلم ’دوپٹہ‘کے مشہور گانے ’چاندنی راتیں‘ کی دُھن بھی مشیر کاظمی نے بنائی تھی۔
خوش گُلو مشیر کاظمی اپنا کلام اکثر ترنم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، بقول شعیب بن عزیز ’دراز قامت، کھلتے ہوئے رنگ، کشادہ پیشانی اور وجیہہ شخصیت کے ساتھ اپنی پُرسوز آواز میں جب وہ شعر کا جادو جگاتے تو وقت تھم جاتا۔‘
سید مشیر حسین کاظمی نے ’مشیر کاظمی‘ کے نام سے شہرت پائی
سید مشیر حسین کاظمی نے ’مشیر کاظمی‘ کے نام سے شہرت پائی۔ والد گرامی سید شبیر حسین کاظمی محمکہ پولیس میں تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد والد کے نقشِ قدم پر پولیس میں بھرتی ہوئے مگر باطن میں پنپتی تخلیقات نے ’پیٹی‘ اتروا کر شعر و ادب کی دنیا میں دھکیل دیا۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی ہجرت پٹیالہ سے مظفر گڑھ کی تھی لیکن ادبی ماحول کی طلب میں دوسری ہجرت انہیں لاہور کھینچ لائی اور پھر وہ یہیں کہ ہو رہے۔ محکمہ پولیس چھوڑنے کا راز ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ان کے لکھے گیت ان کی پسندیدہ گلوکارہ نورجہاں گائیں پھر فلم ’دوپٹہ‘ کی صورت ان کے خواب کو تعبیر ملی۔
ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں مشیر کاظمی کے حوالے سے لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں ( مشیر کاظمی کو ) پہلی بار نورجہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔
وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نورجہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘
تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے
’چاندنی راتیں‘ سمیت فلم ’دوپٹہ‘ کے لیے 8 گیت لکھے جو سُپرہٹ ہوئے اور مشیر کاظمی فلم انڈسٹری کی ضرورت بن گئے۔ انہوں نے 76 اردو فلموں کے لیے 256 نغمے اور 8 پنجابی فلموں کے لیے 11 گیت لکھے۔ ان کے چند مشہور فلمی گیت:
۔۔۔ تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے
۔۔۔ ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے
۔۔۔ شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے
مزید پڑھیں
۔۔۔ تیری شان شانِ قلندری تو بڑا غریب نواز ہے
۔۔۔ زمانے میں رہ کر رہے ہم اکیلے
۔۔۔ اک میرا چاند، اک میرا تارا
۔۔۔ آگ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ
۔۔۔ میں بن پتنگ اڑ جاؤں رے
۔۔۔ مرجھائے ہوئے پھُولوں کی قسم
۔۔۔ حال کیسا ہے جناب کا؟
’لال میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن‘
مشیر کاظمی نے 8 پنجابی فلموں کے لیے بھی 11 گیت لکھے، تاہم فلم ’بشیرا‘ کا گیت ’کندا ڈولی نوں دے جائیں ویر وے‘ اور 1969 کی فلم ’دلاں دے سودے‘ کی دھمال ’لال میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن‘ نورجہاں کی آواز اور نذیر علی کی موسیقی میں امر ہو گئی۔
یاد رہے کہ ’لال میری پت رکھیو بھلا جھولے لالن، سندھڑی دا سیہون دا شہباز قلندر‘ کی استھائی صدیوں سے سینہ بہ سینہ موجود تھی لیکن اس سندھی دھمال کو آفاقی شہرت درویش شاعر ساغر صدیقی کے کلام سے حاصل ہوئی جو انہوں نے 1956 میں فلم جبرو کے لیے لکھا تھا۔ دھمال گلوکار فضل حسین کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ موسیقار عاشق حسین تھے۔
’اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘
مشیر کاظمی نے 65ء اور 71ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران رزمیہ نظمیں، جنگی ترانے اور بے تحاشا قومی نغمے بھی لکھے۔ سرفروشوں کو سلام، نازاں ہے پاک فوج پہ تاریخ ایشیا، بازوئے خیبر شکن، 6 ستمبر کے چاند نے دیکھا، اور بندہ خوددار کو سلام مشہور ہیں۔ تاہم دائمی شہرت ان کے اس قومی نغمے کی حصے میں آئی جو آج بھی جذبہ حب الوطنی ابھارنے اور پسندیدگی میں سرفہرست ہے:
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
’حسینؑ رب کا، حسینؑ سب کا‘
مشیر کاظمی نے امام الشہداء اور کربلا کے حوالے سے شاندار نظمیں تخلیق کی ہیں۔’حسینؓ سب کا، تصوراتِ کربلا، حسینؓ خاموش کیوں کھڑا ہے؟، چراغِ کعبہ، دس محرم اور تلۂِ زینبیہؑ شاہکار نظمیں ہیں۔ مشیر کاظمی نے کہا تھا:
مرے قلم کو نجف سے ملی ہے یہ پرواز
وگرنہ زُلفِ بُتاں میں اُلجھ گیا ہوتا
نگاہِ ساقئ کوثر کا فیض ہے ورنہ
کبھی کا پیرِ مغاں مجھ کولے اُڑا ہوتا
’آتے جاتے رہا کرو صاحب ،،، آنے جانے میں کیوں کمی کرلی‘
مشیر کاظمی نے 2 شادیاں کی تھیں۔ ان کی دوسری اہلیہ روبینہ شاہین سے 3 صاحبزادے سبطین کاظمی، ثقلین کاظمی اور ذوالقرنین کاظمی ہیں۔ سبطین کاظمی وفات پاچکے ہیں، انہوں نے ہی مشیر کاظمی کا رِثائی مجموعہ کلام ’کھلی جو چشم بصیرت‘ مرتب کروایا تھا۔
مشیر کاظمی نے فلموں میں اداکاری اور ڈائریکشن بھی کی جو فلاپ رہی۔ ایک رسالہ شروع کیا جو کامیاب نہ ہوسکا، تاہم گیت نگار کی حیثیت سے ان کی کامیاب فلموں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
’نظم سُن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے‘
مشیر کاظمی نے سقوطِ ڈھاکا کے ایک برس بعد 1972 میں یومِ اقبال کے موقع پرپنجاب یونیورسٹی لاہور میں اپنی مشہور المیہ نظم ’قبرِ اقبال پر‘ پرسوز ترنم سے سنائی:
پھول لیکر گیا، آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
سقوطِ ڈھاکا کے زخم تازہ تھے، شرکا اس طویل المیہ نظم کو سن کر سسکیاں اور دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔
’ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے‘
سقوطِ ڈھاکا کا زخم جیتے جی مشیر کاظمی کے جسم وجاں میں ہرا ہی رہا، اُس دلفگار سانحے کے بعد انہوں نے جو کچھ بھی کہا اس نے اہل وطن کو نہ صرف تڑپایا بلکہ رُلادیا، ایسی ایسی نظمیں کہیں جو آج بھی جی جلاتی ہیں۔
سقوطِ ڈھاکا کا زہر ان کے رگ وپے میں سرائیت کر گیا تھا، اس کرب نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا، وہ لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگاتے جگاتے خود ابدی نیند سوگئے۔ انہوں نے 51 برس کی عمر میں 8 دسمبر 1975 کو لاہور میں وفات پائی اور مومن پورہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
مشیر کاظمی کے اکاؤنٹ میں 2 روپے 20 پیسے تھے
29 جنوری 2024 کو اکادمی ادبیات اسلام آباد میں افتخار عارف کے زیر صدارت مشیر کاظمی کی کلیات ’کلیاتِ مشیر کاظمی‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ مشیر کاظمی کے صاحبزادے ثقلین کاظمی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ والد کے انتقال کے وقت ان کی عمر 16 برس تھی۔ خاصا کڑا وقت تھا۔ والدہ نے بینک بھجوایا تو پتا چلا کہ والد صاحب کے اکاؤنٹ میں صرف 2 روپے 20 پیسے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ ایک دن ایسا آئے کہ حالات اچھے ہوں گے اور وہ اپنا مسودہ شائع کروائیں گے، الحمدللہ آج مشیر کاظمی کا خواب پورا ہوا۔