انسان سوتے ہوئے اگر اپنے ناک اور حلق سے آسانی سے سانس باہر نہ خارج کرسکے تو اس رکاوٹ کے سبب خراٹوں کی صورت میں آواز نکلتی ہے۔
مزید پڑھیں
عام طور پر زیادہ تر خواتین کا یہ ماننا ہے کہ خراٹے لینا ایک مردانہ بیماری ہے مگر اب جدید تحقیقات کے مطابق خراٹے لینے کے لیے مرد اور عورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ماہرین نے 2000 افراد پر ان کے سونے کے دوران ریسرچ کی۔
اس ریسرچ کے مطابق، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان افراد میں سے40 فی صد خواتین ایسی تھیں جو کہ یہ دعویٰ کرتی تھیں کہ وہ سونے کے دوران خراٹے نہیں لیتی ہیں مگر حقیقت میں نہ صرف انہوں نے خراٹے لیے بلکہ ان کے خراٹوں کی شدت کسی بھی طرح مردوں کے خراٹوں سے کم نہ تھی۔
اس ریسرچ کے مطابق 2000 میں سے 1913 افراد سوتے ہوئے خراٹے لیتے ہیں ۔ جن میں سے عورتوں کی تعداد 675 تھی اور مردوں کی تعداد 1238 تھی ۔
ان تمام کی اوسط عمر 49 سال تک تھی ۔ ان خراٹوں کی آواز کی شدت کو جب ناپا گیا تو یہ بھی انکشاف ہوا کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے خراٹوں کی شدت زیادہ تھی مگر زیادہ تر عورتوں کا یہ گمان تھا کہ وہ سوتے ہوئے خراٹے نہیں لیتیں جو کہ اس تحقیق کے بعد غلط ثابت ہو گیا۔
خراٹے لینے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سے سب سے پہلی وجہ عمر ہے۔ عام طور پر جب انسان کی عمربڑھ جاتی ہے تو اس کے حلق کا راستہ قدرتی طور پر تنگ ہو جاتا ہے۔ جس وجہ سے سوتے ہوئے سانس لینے کے دوران آواز آتی ہے۔
موٹاپے کے سبب انسان کے اندرونی اعضا پرچربی کی تہہ چڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے سانس لینے کے عمل میں دشواری ہوتی ہے جو کہ سونے کے دوران خراٹوں کا سبب بنتے ہیں۔
بعض اوقات گلے کی خرابی یا ٹانسلز کی موجودگی یا ناک کا بند ہونا بھی خراٹوں کا سبب بن سکتا ہے۔ بعض لوگ کمر کے بل بالکل سیدھا سوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے سانس لینے کی نالی تنگ ہو جاتی ہے اور ایسی آوازوں کا باعث بنتی ہے۔