کراچی کے علاقے کلفٹن میں سرکاری پلاٹ کی ملکیت کے تنازعہ سے متعلق کیس میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوگئے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کلفٹن میں سرکاری پلاٹ سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب عدالتی حکم پر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مرتضیٰ وہاب سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے آپ کو کیوں بلایا ہے، جس پر مرتضیٰ وہاب نے جواب دیا، ’مجھے میڈیا رپورٹس کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ مجھے بلایا گیا ہے۔‘
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب سے پوچھ لیتا ہوں کہ کیا کیس ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کے مخالف فریق کے وکیل ہیں، آپ کا خیال نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دیکھیں آپ کے وکلا کیا کررہے ہیں، پھر کہتے ہیں سپریم کورٹ میں کیسز نہیں چلتے، کیس چلانے کا کہا تو آپ کے وکیل نے مہلت طلب کرلی۔
’مفاد عامہ کے کیس میں التوا برداشت نہیں کریں گے‘
مرتضیٰ وہاب نے وضاحت کی کہ یہ کیس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے دائر کیا تھا، اب زمینوں سے متعلق یہ محکمہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے پاس ہے۔ مرتضیٰ وہاب کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’سارا دن خراب ہوا اور آپ کا بھی وقت ضائع ہوا، اب بتارہے ہیں کہ یہ کے ایم سی کا مسئلہ ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا کہ آپ کے وکیل عدالت میں کیوں موجود نہیں اور کیس کیوں نہیں چلاتے، جس پر ڈی جی کے ڈی اے نے معاملے کی جامع رپورٹ پیش کرنے کے لیے مہلت طلب کرلی۔
سپریم کورٹ نے ڈی جی کے ڈی اے کو باقاعدہ وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کا ذاتی کیس نہیں بلکہ پبلک پراپرٹیز کا معاملہ ہے، اسے سنجیدہ لیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی کے ڈی اے کو تنبیہہ کی کہ مفاد عامہ کے کیسز میں کوئی التوا برداشت نہیں کریں گے، کے ڈی اے اور کے ایم سی ترجیحی بنیادوں پر کیسز چلائیں، یہ شہریوں کی امانت ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی۔