الٹراساؤنڈ کروانے جب ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی تو دل کے زور زور سے دھڑکنے کی آواز میری سماعت سے ایسے ٹکرا رہی تھی جیسے دل میرے کانوں کا ہی حصہ ہو۔
’آج غالباً معلوم ہو جائے گا کہ میرے بطن میں لڑکا ہے یا لڑکی۔‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
ڈاکٹر نے مجھے لیٹنے کا کہا اور خود مشین آن کر کے الٹراساؤنڈ کرتے ہوئے مجھ سے سوالات کرنے لگی۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج کل ڈاکٹر بچے کا سیکس بتانے سے گریز کرتے ہیں میں نے پھر بھی ڈاکٹر سے کہا: پلیز مجھے بتا دیجئے گا کہ بیٹا ہے یا بیٹی ۔۔۔
’۔۔۔تاکہ میں چیزوں کی خریداری اسی مناسبت سے کروں ۔ویسے بھی ڈیلیوری میں صرف ایک ماہ ہی رہ گیا ہے۔‘
ڈاکٹر نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں کہا: ہماری پالیسی نہیں سیکس بتانے کی۔
میرے اصرار پر ڈاکٹر آخر کار اس سوال کی طرف آئی، جس کا جواب میں غلط دینے کا تہیہ کر کے آئی تھی۔
پہلے کتنے بچے ہیں؟ ڈاکٹر نے پوچھا۔
دو ، میں نے جواب دیا۔
لڑکا یا لڑکی؟ ڈاکٹر نے میری چہرے پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
’پہلی بیٹی دوسرا بیٹا۔‘ میں نے سفید جھوٹ بولا۔
’چلو پھر تو مبارک ہو! اس بار بیٹی ہے۔ یہ جو باری والا سسٹم ٹھیک رہتا ہے نا وہ۔۔۔‘
ڈاکٹر نہ جانے کیا کیا بولے جارہی تھی لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
دماغ ایک دم سُن اور کانوں میں سوائے سائیں سائیں کوئی اور آواز نہیں آرہی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو خوبخود بہنا شروع ہوگئے۔
اور میں یک دم زار و قطار رونے لگی۔ ڈاکٹر نے گھبرا کر باہر بیٹھی میری امی کو کمرے میں بلایا۔
ڈاکٹر کو امی نے اصل حقیقت بتائی کہ میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں اور یہ میرا تیسرا حمل ہے۔
ڈاکٹر مجھے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس وقت ہر نصیحت زہر لگ رہی تھی۔
امی سیدھا مجھے اپنے گھر لے آئیں کیونکہ میں نے رو رو کے خود کو نڈھال کر لیا تھا۔
میرے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
اس وقت دل چاہا کہ میں دنیا کا سامنا کرنے سے پہلے ہی خود کو مار لوں۔
میں پہلے ہی دو بیٹیوں کی پیدائش پر لوگوں کی ترس بھری نگاہیں اور تسلی آمیز جملے نہیں بھولی تھی اور اب پھر سے۔
انیس سال کی عمر میں جب پہلی بار مجھے پتا لگا کہ میں ماں بننے جارہی ہوں تو اس بات کا قطعی ادراک نہ تھا کہ بیٹا یا بیٹی میں کوئی فرق روا رکھا جاتا ہے۔
اس وقت تو صرف یہ ہی اہم سمجھا کہ ماں بننا ضروری ہے ورنہ لڑکی کو بانجھ کا لقب ملتے دیر نہیں لگتی۔
اس سے قطع نظر کہ کوکھ میں کس جنس کا وجود ہے، ماں بچے کو نو ماہ پیٹ میں رکھتی ہے ، درد سہتی ہے ۔
پہلی دو بیٹیوں کی پیدائش پر ہی احساس ہوگیا کہ اس سماج میں بیٹی ہونے پر کس طرح کا سرد ردعمل اپنایا جاتا ہے۔
چونکہ ہمارے سماج میں بیٹی ہونا ایک دوش ہے اس لیے سارا دوش عورت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔
کیونکہ بیٹیاں پیدا کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی روایت توڑنے کا جرم سرزد ہوا ہو۔
جب کہ سائنس ثابت کر چکی ہے کہ جنس کا تعین عورت نہیں بلکہ مرد کے ذمہ ہوتا ہے۔
عورت کو ہر مرحلے پر ایک نئے امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔
شادی نہ ہو تو مسئلہ، ہو جائے تو بچہ جلدی کیوں نہیں ہورہا، لڑکی ہو تو اولاد نرینہ کی خواہش کہ نسل قائم رہے
اور اگر لڑکی نہ ہو تو یہ گلہ کہ بیٹی نہ ہونے سے گھر میں رونق نہیں۔
یہ تمام ایسی ناجائز روایات اور توقعات ہیں جو اس سماج نے عورت سے وابستہ کی ہوئی ہیں۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
شوہر کے علاوہ (کیونکہ ان کے نزدیک یہ باتیں بے معنی اور فضول تھیں) رشتہ داروں اور آس پاس کے دیگر لوگوں کا دو بیٹیوں کے بعد اولاد نرینہ پیدا کرنے کا ڈھکے چھپے انداز میں اصرار بڑھتا گیا اور مجھے واقعی لگا کہ میں اس نعمت کے بغیر بے وقعت ہوں۔
خدا کی قدرت دیکھیے کہ ہمارے گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے والی ماسی بھی مجھے بیٹے ہونے کے فوائد گنوانے سے باز نہ رہتی تھی جس کے خود دو جوان لڑکے دن بھر گھر کی چارپائیاں توڑنے، ماں کی کمائی کھانے اور پیسے نہ ملنے پر اپنی ہی ماں کی دھنائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔
’دو بیٹیوں کے بعد تو لڑکا ہی ہوتا ہے۔‘
’دوسری بیٹی کے بالوں میں بھنور اگر اوپر کی جانب ہو تو اگلا بیٹا ہی ہوگا۔‘
’حاملہ کا پیٹ نیچے کی جانب جھکا ہوا ہے، چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔‘
’اس بار پے در پے الٹیاں ہو رہی ہیں یا خالی پیٹ ڈکاریں آنا بھی اسی بات کی نشاندہی ہے کہ اس بار پیٹ میں لڑکا ہی ہے۔‘
یعنی جتنے منہ اتنی باتیں جس سے ایک حاملہ کو پختہ یقین ہو جائے کہ اس بار تو بیٹا ہی ہوگا۔
یہ ساری کارستانی میری امی دیکھ رہی تھیں اور شاید چار بیٹیوں کی ماں ہونے کے ناطے انہیں احساس تھا کہ اگر اس بار بھی بیٹی ہوئی تو میری ذہنی اور جسمانی صحت پر اس کے اثرات بہت منفی ہو سکتے ہیں، یہی سوچتے ہوئے وہ مجھے الٹرا ساؤنڈ کے لیے کلینک لے گئیں۔
یہ جاننے کے بعد کہ ایک بار پھر میں بیٹی ہی جنم دینے والی ہوں گھر پہنچتے ہی میں نے محلے کی ایک ڈاکٹر نما نرس سے رجوع کیا کہ مجھے ایبورشن کروانا ہے۔
حمل کے آٹھویں ماہ ایسا کرنا اپنی اور ہونے والی جان پر سراسر ظلم تھا لیکن میں نے اس ’ڈاکٹر‘ سے حمل ضائع کرنے کے لیے چار انجیکشن لگوائے۔
اور جو کچھ ’ٹوٹکے‘ جن سے حمل ضائع ہونے کا خدشہ ہو سوچے سمجھے بنا کرنے لگی۔
باورچی خانے کے ٹاپ پر چڑھ کر چھلانگیں لگاتی، تیز قدموں سے سیڑھیاں اترتی، چڑھتی، ایسی ایکسرسائز کرتی جو حاملہ کے لیے ممنوع تھیں لیکن ساری تدابیر بے سود رہیں۔
میں اس ساری ظالمانہ کاروائی میں اتنی مگن تھی کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ پیٹ میں بچے کی دھڑکن آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی تھی۔
اور پھر ایک دن محسوس ہوا کہ میرے اندر کچھ بھی نہیں۔ میرا پھولا ہوا پیٹ ہی نہیں میری روح تک خالی اور ویران ہے ۔
میری کوکھ میں آنے والی روح نے یہ جان لیا تھا کہ اسکی آمد اس کی ماں کے لیے ایک طعنہ بن جائے گی سو اس نے دنیا میں آنے کے لیے اپنے معصوم ہاتھ پاؤں مارنے کی تگ و دو بند کر دی، سانس روک لی۔
انجیکشن اور ٹوٹکے تو میری اس سخت جان بچی کا کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن میرے رویے اسے اندر ہی اندر مار رہے تھے۔
تیسرے دن بھی جب کوکھ میں سناٹا رہا تو ماں ہڑبڑا کر جاگ اٹھی۔
اس وقت نہ دنیا کے طعنوں کی فکر تھی نہ بے وقعتی کی پرواہ۔ صرف ایک ماں کے آنسو تھے کہ کہیں اسکی کوکھ نہ اجڑ جائے۔
آناً فاناً ایمرجینسی میں گئے جہاں طبی امداد کے نتیجے میں میری بیٹی کی سانسوں کو دوبارہ بحال کیا گیا۔
ڈاکٹر کے مطابق چونکہ میں اس حمل سے ناخوش تھی، جس کا بچی یا بچے کو قدرتی ادراک ہوجاتا ہے، اس لیے مجھے خوش رہنے کی تاکید کی گئی تاکہ بچی صحت مند پیدا ہو۔
قدرت کا احسان کہ میری بیٹی پر ان انجیکشن اور ٹوٹکوں کا اثر نہیں ہوا اور وہ مکمل صحت مند پیدا ہوئی۔
اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی بچیوں کو ایک بااختیار، با اعتماد اور ذمہ دار شہری بناؤں گی۔
’دنیا کیا کہے گی!‘ جیسی خرافات سے نکل کر وہ اپنے لیے خود راہیں تلاش کریں۔
وہ سارے taboos توڑنے کی حتی الامکان کوشش کی جو ناممکن محسوس ہوتے تھے۔
تمام رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود سولہ برس کی عمر میں بڑی بیٹی کو ہائی اسکول اسکالرشپ پر امریکہ بھیجا۔ اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا کیوں کہ راہ ہموار کر لی تھی۔
تینوں بچیوں کو اسکول کے بعد بیرون ملک بھیجنا ان کے اعتماد کو جلا بخشنا تھا۔
آج میری تینوں بیٹیاں سیاسی ، سماجی اور ادبی شعور سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ برسر روزگار بھی ہیں۔
میری وہ بچی جس کو اس وقت میں بیٹے کی صورت میں دیکھنا چاہتی تھی ،آج میں بلا تامل اور فخر سے کہتی ہوں کہ شکر ہے کہ قدرت نے مجھے بیٹی سے ہی نوازا۔
آج وہ کینیڈا میں زیر تعلیم ہے اور اپنے اخراجات خود اٹھانے کے لئے ملازمت بھی کر رہی ہے۔ موسیقی سے شغف رکھتے ہوئے اس نے باقاعدہ اس کی تعلیم بھی حاصل کی ہے۔
تینوں بیٹیاں ہمارا فخر ہیں۔ میری بیٹیوں کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد کا حصہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔
ہمارے سماج پر یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ ہم بیٹوں کو بیٹیوں پر کیوں فوقیت دیتے ہیں؟
جبکہ اب ہر شعبے میں عورت مرد کے مقابل کھڑی نظر آتی ہے۔
میں زندگی میں بہت سی عورتوں سے ملتی ہوں۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں اور دفتروں میں، بوڑھی خواتین سے جوان عورتوں اور بچیوں تک سب کو دیکھ کر اکثر خیال آتا ہے کہ ان سب کے وجود سے یہ سماج منکر ہے۔
انکی پیدائش پر نوحہ کناں ہے۔
سوچتی ہوں ان کے جنم پر کیسا کیسا ماتم ہوا ہوگا۔کتنے دل خوف سے کانپے ہوں گے۔
کتنے طعنے سینوں کو چھلنی کر گئے ہوں گے۔کیا خوف انکی پیدائش پر مسلط ہوا ہو گا۔
لیکن یاد رکھیں، عورتوں کے وجود سے انکار کرنے والے نہیں جانتے کہ یہی بچیاں آنے والے وقت کا حوالہ ہوں گی، اک نئے دور کا اجالا ہوں گی۔