بچپن میں ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں یا پھر عیدالفطر کے موقع پر ہم سب نانی اماں کے گھر ضرور جاتے تھے۔ ننھیال جانے کی ہمیں شدید خواہش ہوتی تھی اور اُس کے لیے نہ صرف ہم بھرپور تیار ہوتے تھے۔ ہماری والدہ بھی اپنے امی ابو اور بھائیوں کے گھر بہت شوق سے جاتی تھیں۔ ایسی ہی کچھ صورتحال گزشتہ دو تین برسوں سے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔
نیوزی لینڈ ہمیشہ سے ہی ایک ایسی ٹیم رہی ہے جسے سکیورٹی کے حوالے سے خدشات بہت زیادہ لاحق ہوتے ہیں تاہم نیوزی لینڈ وہ واحد ٹیم ہے جو پاکستان میں کرکٹ بحال ہونے کے بعد یہاں آ کر سب سے زیادہ میچز کھیل چکی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ بحال ہونے کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پہلا دورہ 23-2022 میں کیا جس میں 2 ٹیسٹ اور 3 ون ڈے شامل تھے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز 0-0 سے برابر رہی جبکہ ون ڈے سیریز کیوی ٹیم نے 1-2 سے اپنے نام کر لی۔
اس دورے کے 3 ماہ بعد یعنی اپریل 2023 میں کیوی ٹیم ایک مرتبہ پاکستان آئی جہاں اُس نے گرین شرٹس کے خلاف 5 ٹی ٹوئنٹی اور 5 ون ڈے میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جس میں ٹی20 سیریز 2-2 سے برابر رہی جبکہ ون ڈے سیریز میں پاکستان نے 1-4 سے کامیابی حاصل کی۔
اس سیریز کے ایک سال بعد ایک مرتبہ پھر کیوی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے جس میں دونوں ٹیموں کے درمیان 5 ٹی ٹوئنٹی میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جا رہی ہے جو کہ اب تک 1-1 سے برابر ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم اب باقاعدگی سے ہر سال پاکستان آنے لگی ہے تو اس کے کھلاڑی بھی ان ٹورز کا مزہ لینے لگ گئے ہیں۔ اس سیریز کے لیے جب بلیک کیپس کی ٹیم اسلام آباد پہنچی تو کیوی آل راؤنڈر جمی نیشم نے سٹوری لگائی کہ ’سالانہ وِزٹ کے لیے واپس آگئے ہیں۔‘
پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں گزشتہ 3 سالوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنے میچز کھیل چکی ہیں کہ اب دونوں ٹیموں کے درمیان باہمی مقابلوں سے دل بھرتا جا رہا ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ میں سہ ملکی سیریز کھیلی۔ پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ نے پاکستان کے 2 دورے کیے۔ پھر دونوں ٹیموں کے درمیان بھارت میں کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ میں گروپ میچ ہوا۔ بعد ازاں پاکستانی ٹیم 5 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریزکھیلنے کیویز کے دیس گئی اور اب کیویز پھر سے سالانہ دورہ کرنے اپنے کرکٹ کے ’ننھیال‘ آ چکے ہیں۔
کرکٹ تو ہونی چاہیے اور بھرپور ہونی چاہیے۔ افسوس ناک بات مگر یہ ہے کہ کرکٹ مکمل طور پر بدل چکی ہے اور اب کھلاڑیوں کا مقصد لیگز کھیلنا ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہیں تو کھلاڑیوں کا مقصد اب پیسہ کمانا ہی رہ گیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب لیگ کرکٹ نئی نئی شروع ہوئی تھی تو لیگ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی قومی ٹیم کی جب سیریز ہوتی تھی تو وہ لیگ چھوڑ کر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے۔ اب صورتحال بالکل الگ ہے۔
اب کھلاڑی اپنی ٹیم کی سیریز چھوڑ کر لیگ (خاص طور پر آئی پی ایل) کھیلنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور کرکٹ بورڈ انہیں مکمل طور پر سپورٹ کرتا ہے کیونکہ دنیا کے تقریباً تمام کرکٹ بورڈز بھارتی بورڈ سے ڈرتے ہیں اور تنہا نہیں ہونا چاہتے۔ اسی وجہ سے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی پاکستانی سٹیڈیم نیوزی لینڈ کے سٹار کھلاڑیوں کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ نیوزی لینڈ نے پچھلے سال آئی پی ایل کی وجہ سے اپنی بی ٹیم پاکستان بھیجی تھی لیکن اس سال تو سی ٹیم ہی بھیج دی۔
آئی پی ایل کی وجہ سے کین ولیمسن، ڈیوون کونوے، ٹرینٹ بولٹ، ڈیرل مچل، مچل سینٹنر، رچن رویندرا، میٹ ہینری، لوکی فرگسن اورگلین فلپس پاکستان نہیں آئے جبکہ کچھ کیوی کھلاڑی نجی مصروفیات کے باعث اس دورے سے دستبردار ہوگئے۔ یوں نیوزی لینڈ بورڈ نے پاکستان اپنی سی ٹیم بھیج دی جس کا مقابلہ پاکستان کی اے ٹیم سے جاری ہے۔
میرے خیال سے اب ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ کرکٹ کا حال اور بالخصوص مستقبل یہی ہے کہ کھلاڑی سال بھر ٹی ٹوئنٹی لیگز کھیلیں گے اور پھر اس دوران وہ بڑی ٹیسٹ سیریز یا آئی آئی سی ایونٹس کھیلنے کے لیے ملک کی نمائندگی کریں گے۔ ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ جاری رہے گی جبکہ ون ڈے کرکٹ پر آیا یہ زوال مزید گمبھیر ہوتا جائے گا۔