ملک بھر میں جاری مردم شماری پر منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس نے سندھ میں مقیم غیر ملکی تارکین وطن کو علیحدہ سے شمار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
کراچی میں منعقدہ اس کانفرنس نے حکومت سے تقاضا کیا ہے کہ مردم شماری کا مقررہ وقت بھی بڑھایا جائے اور خانہ شماری کے بعد ہر گھر کے سربراہ کو اندراج کی رسید بھی فراہم کی جائے۔
کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کثیر الجماعتی کانفرنس کے صدر اور سینیٹر نثار کھوڑو نے بتایا کہ ملک بھر میں جاری ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران ایک گھرانے کا فارم بھرنےمیں لگ بھگ آدھا گھنٹہ صرف ہورہا ہے لہذا اتنی کم مدت میں ملک بھر کے تمام گھرانوں کا شمار انتہائی دشوار کام بن جائے گا۔
نثار کھوڑو کے مطابق مردم شماری کے عملہ کو فراہم کردہ ٹیبلیٹ کے ساتھ ساتھ متعلقہ ایپلیکیشن میں بھی خرابی ہے۔
گزشتہ انتخابات کے دوران رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS) کے تنازعہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ یہ ڈیجیٹل مردم شماری آر ٹی ایس کی طرح ثابت ہوسکتی ہے۔
’اس لیے مردم شماری کے مقررہ وقت میں اضافہ کیا جائے۔ خانہ شمار ی کے بعد ان گھرانوں کو رسید فراہم کی جائے اور اس ڈیجیٹل مردم شماری کا ڈیٹا سندھ کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے۔‘
پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ سندھ میں مقیم غیرملکی تارکین وطن کے لیے مردم شماری کے فارم میں علیحدہ خانہ رکھتے ہوئے انہیں غیرملکی تارکین وطن کے طور پر شمار کیا جائے تاکہ صوبہ بھر میں ان کی صحیح تعداد کا علم ہوسکے۔
نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ دو صوبوں میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد جب کہ باقی ملک میں نئی مردم شماری پر انتخابات نئے تنازعہ کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ ان کے مطابق کانفرنس میں شریک جماعتوں نے نئی مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ملک میں ایک ساتھ نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔
نثار کھوڑو نے بتایا کہ کانفرنس نے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملہ پر وفاق سے مذاکرات کے ذریعہ صوبہ کے خدشات دور کروائیں ۔
’اگر سندھ میں مردم شماری سے متعلق تمام خدشات دور نہیں کیے گئے تو سندھ مردم شماری کے نتائج قبول نہیں کرے گا۔‘
پاکستان میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل اور ساتویں قومی مردم شماری پر منعقدہ اس مختلف الخیال جماعتوں پر مشتمل اس کانفرنس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت سندھی قوم پرست جماعتوں نے بھی شرکت کی۔
ایم کیو ایم پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی جب کہ مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، سندھ ترقی پسند پارٹی اور عوامی جمہوری پارٹی کے رہنماؤں نے اس میں حصہ لیا۔














