تم کراچی والے بریانی اور نہاری کے معاملے پر اس قدر ’حساس‘ کیوں ہوجاتے ہو؟
یہ بالکل ویسا ہی مکالمہ ہے جیسے دپیکا پدوکون نے کہا تھا کہ ایک چٹکی سندور کی قیمت تم کیا جانو راجیش بابو
خیربریانی یا نہاری سے متعلق یہ چبھتا ہوا سوال عموماً ہم سے اُس وقت بھی دریافت کیا جاتا ہے جب کراچی سے لاہور کا رخ کریں اور کہیں احباب کی محفل سجی ہو، یا پھر کوئی زندہ دل لاہوری مہمان کراچی کی تقریب میں ساتھ ہو۔
جواب یہی دیا جاتا کہ بھئی ہم کراچی والوں سے بہتر کوئی اور یہ دو پکوان بنا ہی نہیں سکتا۔ اب ہماری خوش فہمی کہیں یا دعویٰ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کراچی والوں کو بریانی اور نہاری پکانے پر دیگر شہروں کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔
ہم نے اپنے کئی یار دوستوں کو پردیسیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہوئے بھی سنا کہ دیکھو اگر ہم بریانی اور نہاری پکانے میں اور اس کے ذائقے میں مہارت نہیں رکھتے تو کوئی یہ فرمائش نہ کرتا کہ کراچی آئیں اور بریانی نہ کھائیں یا نہاری۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
ہمیں یاد ہے کہ جب پہلی بار لاہور کا رخ کیا تو ایک دوست نے کہا چلو تم کو آج کراچی کے ذائقے والی بریانی کھلاتے ہیں۔
دوست کے ساتھ ہولیے، لاہورکا ایک علاقہ تھا جس کے ریستوران کے باہر لکھا تھا کراچی بریانی۔ ۔ جس ریستورا ن کے مہمان بنے۔ وہاں کرسیاں بھری ہوئی تھیں۔ آرڈر پر جب ہمارے لیے بھی بریانی آئی تو سوائے اس کے ظاہری روپ کے اسے کسی صورت بھی بریانی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے بابراعظم کی شرٹ پہنا کر آپ محمد حارث کو بیٹنگ کے لیے بھیج دیں۔ میزبان کا دل رکھنے کے لیے اور اپنے دل پر پتھر رکھ کر تعریف بھی کی۔ لیکن ہر لقمے کے بعد یہی دیکھتے کہ پلیٹ میں بریانی کتنی رہ گئی ہے۔
اس پکوان کو بریانی کہنے کا دعویٰ بالکل ایسے ہی سمجھا جائے جیسے کراچی میں مرغ چھولے اورسری پائے یہ کہہ کر فروخت کیے جاتے ہیں کہ ان میں لاہور جیسا ذائقہ ہے۔ کراچی والوں کو تسلیم کرنا پڑے گا جیسے بریانی اور نہاری ان کی پہچان ہے اور انہیں بنانے میں وہ کوئی ثانی نہیں رکھتے اسی طرح مرغ چھولے اور سری پائے کے معاملے میں لاہوری کمال مہارت رکھتے ہیں۔
خیر اب تو بریانی کی کئی اقسام سامنے آچکی ہیں۔ بھلا ہوفوڈ وی لاگز بنانے والوں کا جو نجانے کہاں کہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر بریانی اور نہاری کے مقام سامنے لے آتے ہیں، ان میں سے کچھ کے انداز دیکھ کر ’کوا بریانی‘ کھلانے کا بھی گمان ہوتا ہے۔ ابھی انہی وی لاگرز کی مہربانی سے لیاقت آباد کی نلی بریانی والے بھائی صاحب اس قدر مشہو ر ہوئے کہ ایک ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں براہ راست نلی بریانی بناتے ہوئے دیکھا۔ بڑی سی دیگ تھی جس کے پاس بیٹھ کر موصوف میزبان سے گفتگو بھی کرتے رہے اور بریانی بھی بناتے رہے۔ خاتون میزبان نے محنت تو ساری کرائی لیکن موٹاپے کے خوف سے کھائے صرف دو ہی چمچے۔
اگرآپ کراچی کے مہمان بنیں گے تو ایک بات اٹل ہے کہ بریانی آپ کو ہر دوسری جگہ پر مل جائے گی۔ کہیں کوئی پتھارے پر دیگ رکھ کر یہ بیچ رہا ہوگا تو کہیں عالی شان ریستوران میں یہ آپ کی میز اور پھر پیٹ تک پہنچے گی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بریانی سستی بھی ملے گی اور مہنگی بھی۔ مطلب قیمتوں کے معاملے میں بھی اس کی کئی اقسام ہیں۔ بریانی ان، کیفے اسٹوڈنٹ، بریانی کارنر، بریانی والا وغیرہ جیسے نام آپ کو جابجا نظرآئیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ” جمعہ بریانی” تک بمبینو سنیما کے پاس ملنا شروع ہوگئی ہے۔ خاص بات یہ رہتی ہے کہ یہ صرف جمعے کو ہی ملتی ہے۔ بڑا سارا تھال ہوتا ہے جس میں بریانی کسی دلہن کی طرح سجا کر پیش کی جاتی ہے۔
ہمارے ایک دوست تو ایسے ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ چکن بریانی کوئی بریانی ہوتی ہے۔ پتا نہیں کیسے تم لوگ ربڑ (چکن) بریانی کھالیتے ہو۔ اصل مزہ تو بیف اور مٹن کی بریانی کا ہے۔ وہ تو یہاں تک شکایت کرتے ہیں کہ یہ بریانی بیچنے والے محنت سے جان چراتے ہیں۔ چکن جلدی پک جاتا ہے اسی لیے اس کا استعمال زیاد ہ ہورہا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو چکن بریانی نے بیف اور مٹن کی چھٹی ہی کرادی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آئے دن ہم چکن کی بڑھتی قیمتوں اور چکن کے نقصانات کا رونا روتے ہیں لیکن مجال ہے جو اس سے اپنا دامن چھڑا لیں۔ کھانوں میں چکن شامل نہ ہوتو لگتا ہے جیسے پکوان پھیکا ہی پڑ گیا۔
پاکستانی ٹیم جب بھارتی شہر حیدرآباد دکن میں وہاں کی بریانی کے گن گارہی تھی تو ایک دوست کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کرکٹ بورڈ نے ٹیم کو کبھی کراچی کی بریانی کا مزہ نہیں چکھایا۔ ایک دفعہ کھالیتے تو حیدرآبادی بریانی کو بھول جاتے۔
بات کی جائے نہاری کی تو جناب اس کے کھانے کا مزہ تو موسم سرما میں صبح سویرے ہی آتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں کراچی کے ایک ریستوران کا نام کیا مشہور ہوا بھائی صاحب نے فوراً ہی اس کی قیمت میں اضافہ کرکے گاہکوں کو نیا تحفہ دے دیا۔ لیکن اس اضافے کے باوجود ذرا اس ریستوران کا کبھی رخ تو کریں۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ویک اینڈ پر تو لوگ انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ کب کوئی کرسی خالی ملے وہ اس پرقبضہ کرلیں۔
اب نہاری ہو یا بریانی اس اہم مسئلے پر لاہور اور کراچی والوں میں سوشل میڈیا پر پانی پت کی جنگ تو چھڑی ہی رہتی ہے۔ دعوے دونوں طرف سے ہوتے ہیں اور فاتح بھی دونوں شہروں کے باسی کبھی نہ کبھی اپنے آپ کو قرار دیتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک ایسابے معنی ٹاکرا ہے جو کبھی بھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گا۔
کراچی والوں کو اپنی بریانی اور نہاری پر ناز ہے تو بھئی کرنے دیں۔ اب تو خود وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کراچی کی تاجر برادری کو یہ مشورہ دے ڈالا کہ اگر کاروبار میں وسعت یا ترقی دینی ہے تو نہاری اور کباب کھلائے جائیں۔ یہی نہیں بھئی ماضی میں معین علی نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ کراچی کے کھانوں میں ذائقہ ہے جو لاہورکے کھانے میں نہیں۔ لاہور والوں کو بھی چاہیے کہ تسلیم کرلیں کہ نہاری اور بریانی کراچی والوں کی ہی خاص سوغات ہے اور اسے بنانے میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ بقول ہمارے ایک جذباتی دوست کے کہ لاہور والے کوشش کریں کہ اپنے سری پائے اور مرغ چھولے کو بریانی اور نہاری کی طرح” برینڈ ” بنانے کی۔ کیونکہ انہیں لاہور اسٹائل بنانے میں ابھی کراچی والے بہت پیچھے ہیں۔