قدیم روایتی کھیل گتکا عدم توجہی کے باوجود آج بھی مقبول

پیر 29 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گتکا ہزارہ ڈویژن اور آزادکشمیر کے بعض حصوں میں کھیلا جانے والا ایک روایتی کھیل ہے، جو صدیوں سے اس علاقے میں کھیلا جارہا ہے۔ تلوار نما لکڑی کی چھڑی اور چمڑے سے بنی ڈھال کی مدد سے کھیلا جانے والا یہ کھیل اولین طور پر جنگی سپاہیوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جوں جوں آلات حرب و ضرب میں جدت آئی تو یہ کھیل محض خوشی کی تقریبات اور میلوں ٹھیلوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کھیل کی کبھی پذیرائی نہیں کی گئی تاہم علاقائی ثقافت کا اہم جزو ہونے کے باعث یہ ہمیشہ سے لوگوں کے بہت قریب رہا ہے۔

آج بھی ہزارہ ڈویژن کے بعض حصوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے طور پر اس کھیل کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ انہی میں ضلع مانسہرہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کڑلال کے رہائشی محمد دلدارتنولی بھی ہیں، جو گتکا کے معروف کھلاڑی ہیں اور انہیں دور و نزدیک تقریبات میں گتکا کھیلنے یا بطور جج خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔

دلدار تنولی نے وی نیوز کو بتایا کہ گتکا کھیلنا انہوں نے اپنے والد سے سیکھا تھا۔ پھر اپنے بیٹوں کو سکھایا اور اب وہ اپنے پوتوں کو سکھا رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اس کھیل کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

’وہ سمجھتے ہیں کہ گتکا صرف کھیل نہیں بلکہ دیسی مارشل آرٹ ہے جو کھیلنے والوں کو سیلف ڈیفنس کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور انہیں آخری دم تک چاق و چوبند رکھتا ہے‘۔

70 سالہ دلدار تنولی نے بچپن میں گتکا کھیلنا سیکھا اور وہ آج بھی اسی توانائی اور طاقت کے ساتھ گتکا کھیلتے ہیں۔ نہ صرف کھیل کے دوران بلکہ زندگی کے باقی امور کی انجام دہی میں بھی وہ کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ ’اس توانائی اور اچھی صحت کی وجہ گتکا ہے جو وہ باقاعدگی سے کھیلتے ہیں‘۔

گتکا اور اس کا ثقافتی و عسکری پس منظر

گتکا کو علاقائی سطح پر دوبارہ متعارف کروانے اور نئی نسل کو اس سے روشناس کروانے لیے کوشاں مقامی صحافی و سماجی شخصیت صفدرحسین کہتے ہیں کہ گتکا اگرچہ ہزارہ ڈویژن کے تمام تر حصوں میں کھیلا جاتا ہے، تاہم دریائے سندھ کے ملحقہ خطوں کا کھیل زیادہ سخت اور جارحانہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں یہ فری اسٹائل میں کھیلا جاتا ہے جس میں کھلاڑی ایک دوسرے پر کھل کر حملے کرتے اور اپنا بچاؤ کرتے ہیں۔ ’ان علاقوں میں یہ کھیل سے زیادہ جنگ تصور کیا جاتا ہے اور اس کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے کیوںکہ یہ علاقے کئی زمانوں تک بیرونی جارحیت کا شکار رہے جس سے نمٹنے کے لیے رضاکار قبائلی لشکروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رہتا اور گتکا اس کا اہم جزو رہا‘۔

اس کھیل کا مرکز ضلع مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور اور ہزارہ سے ملحقہ پنچاب و کشمیر کے اکثر علاقے ہیں، تاہم ملک کے دیگر بڑے شہروں میں مقیم ہزارہ کے لوگ اپنی تقریبات میں اس کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔

صفدرحسین کے بقول انہوں نے چند سال قبل علاقائی سطح پر اس کھیل کو فروغ دینے کے لیے سالانہ بنیادوں پر نمائش اور گتکا مقابلوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا جس میں معروف و ماہر کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ نوجوان نسل اس کھیل کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہو اور وہ اسے سیکھنے کی جانب راغب ہوسکے۔ ان اقدامات کی بدولت نوجوان نسل اپنی ثقافت سے روشناس ہوئی اور ان کے دلوں میں اس کھیل کو سیکھنے اور کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔

گتکا کی ثقافتی اہمیت

گتکا اس خطے کی تاریخ و ثقافت کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی طور پر خاصا اہم تصور کیا جاتا ہے۔ بالخصوص طریقت کے تمام سلسلوں میں اس کے کھلاڑیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس خطے میں روحانیت کے تمام مراکز میں سالانہ عرس اور میلوں میں گتکا کے مقابلوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی خصوصی طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

محمد ہارون خان ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔ وہ اپنی سرکاری ملازمت کے باوجود گتکا کھیلتے رہے ہیں بلکہ آج بھی اسی ذوق و شوق سے کھیلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گتکا ہمارے ہاں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا اہم جزو ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے وقتوں میں جب لڑکے والے ڈولی لینے دوسرے گاؤں یا علاقے میں جاتے تھے تو باراتیوں کے لیے ڈولی اٹھانے سے قبل چند شرطیں لازمی رکھی جاتی تھیں۔ جن میں ٹمن مارنا (نشانہ بازی)، گٹی (بھاری پتھر) اٹھانا اور پھر لڑکی والوں کی طرف سے نامزد کردہ شخص سے گتکا کا مقابلہ جیتنا شامل تھا۔

’اگر باراتی یہ مقابلہ جیت جاتے تو انہیں ڈولی کے ہمراہ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ واپس روانہ کردیا جاتا۔ لیکن دوسری صورت میں خاصی سبکی ہوتی۔ اس لیے ایسے مواقع پر بارات میں ان فنون کے ماہرین کو خصوصی طور پر ساتھ رکھا جاتا تاکہ گاؤں کی عزت پر آنچ نہ آئے۔ یہ بڑا دلچسپ اور سنسنی خیز مرحلہ ہوتا تھا جو بعدازاں عرصہ تک حجروں اور نجی محفلوں کا موضوع بحث بنا رہتا‘۔

محمد ہارون خان کہتے ہیں کہ گتکا جیسی خوبصورت روایت اور ثقافت ہمیشہ کی طرح آج بھی سرکاری سرپرستی سے محروم ہے۔ یہ کھیل اگر زندہ ہے تو وہ چند مخلص لوگوں کی محنت اور محبت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کھیل کو علاقائی و قومی سطح پر سرکاری سرپرستی فراہم کی جائے تاکہ نوجوانوں کو ایک مثبت اور مثالی سرگرمی سے باقاعدہ روشناس کروایا جاسکے۔

گتکا کے قواعد و ضوابط

محمد مختار قاضی ایک مسجد کے امام و مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ گتکا کے ماہر کھلاڑی بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گتکا کے کوئی تحریری قواعد موجود نہیں، البتہ صدیوں سے سینہ بسینہ چلی آرہی روایات ہیں جن پر آج بھی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ ’اس کا کھلاڑی ہمیشہ ننگے پاؤں اکھاڑے میں اترتا ہے، مقابلہ شروع ہونے سے پہلے بلند آواز میں خصوصی دعا پڑھی جاتی ہے جسے کھاڑا کہا جاتا ہے‘۔

’اس کھیل کے مختلف مدارج ہیں جنہیں گردی، کائیاں، ٹھاپ، اٹھا، روک اور مقابلہ کہا جاتا ہے۔ مقابلہ یا روک سب سے آخری اور اہم حصہ ہے جس میں کھلاڑی کی اپنے کھیل میں مہارت اور گرفت کھل کر سامنے آتی ہے کیوںکہ یہیں سے ہار یا جیت کا فیصلہ ہوتا ہے‘۔

اگرچہ بعض اوقات یہ کھیل مکمل ناک آؤٹ کے اصول پر کھیلا جاتا ہے جس میں ایک فریق کو دوسرے فریق کو تابڑ توڑ حملوں کے بعد دائرہ سے باہر کرنا ہوتا ہے لیکن یہ صرف ماہر ترین کھلاڑی ہی کھیلتے تھے یا ہیں کیوںکہ اس میں سخت ضرب یا چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ البتہ اب ایسا بہت کم ہوتا ہے بلکہ کھلاڑی ایک دوسرے پر علامتی نشان یا ضرب لگا کر ہار یا جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp