24 گھنٹوں کے مزدور

بدھ 1 مئی 2024
author image

فریحہ رحمان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آہستہ آہستہ کمروں کی بتیاں بجھتی گئیں اور سارا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ وہ تو اپنے ایک کمرے پر مشتمل چھوٹے سے گھر میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ سونے کی عادی تھی۔ آج اکیلے اتنے اندھیرے میں سوتے ہوئے اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔

باجی کی تاکید کے مطابق اس نے ڈریسنگ کی بتی جلا کر کمرے کی باقی بتیاں بجھا دی تھیں۔

یہ کا فی وسیع گھر تھا جس کے 3 کمرے تھے اور ایک بیٹھک جسے ضرورت کے پیشِ نظر تولیوں کا گودام بنا دیا گیا تھا جو ان لوگوں کا کاروبار تھا اور جس کی وجہ سے دیگر ملازمین کا بھی اس گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔

ایک کمرہ باجی کا تھا۔ ایک ان کے 4 بچوں کا جہاں آج مہمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ بچے باجی کے ساتھ سو رہے تھے اور بیٹھک میں بنے تولیوں کے گودام میں لاہور سے آنے والے مہمانوں کا ڈرائیور۔ اس 12 سالہ بچی کو، جو روزانہ 6 بجے چھٹی کر جاتی تھی، آج باجی نے زیادہ کام کے سبب رات بھر کے لیے روک لیا تھا۔

اکیلے کمرے میں ابھی خوف سے اسے نیند بھی نہ آئی تھی کہ آہٹ سی محسوس ہوئی۔ زور سے بھینچی ہوئی آنکھیں کھولیں تو کمرے کی طرف کوئی آتا ہوا محسوس ہوا۔ پہلے سے ڈری بچی کا خوف کے مارے سارا بدن کانپنے لگا۔ پھر وہ آہٹ تھوڑی اور قریب محسوس ہوئی۔ ساتھ ہی کمرے کے ڈریسنگ میں موجود غسل خانے کی طرف کوئی بڑھا۔ پھر غسل خانے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔

وہ ڈرائیور تھا۔ اس غسل خانے کا ایک دروازہ گودام میں بھی کھلتا تھا لیکن اس کے آگے لگے تولیوں کے انبار کی وجہ سے کھل نہیں سکتا تھا۔ گودام میں آنے جانے والے دیگر ملازمین بھی یہی غسل خانہ استعمال کرتے تھے۔ جب تک وہ واپس نہیں گیا یہ چھوٹی سی مصوم بچی، جو اپنے حالات کی وجہ سے اپنی عمرسے کافی زیادہ سمجھدار ہوچکی تھی، خوف زدہ ہی رہی۔ اس کے جانے کے بعد رات کی بڑھتی ہوئی خاموشی کے ساتھ ساتھ خوف کے ساٰئے اوربھی گہرے ہوتے گئے۔

روزانہ جب بچے رنگ برنگے لباس پہن کر سکول جاتے تو وہ اس گھر کا رخ کرتی۔ کبھی کبھی جب اسے آنے میں دیر ہو جاتی اور باجی بچوں کو بھیج کر سو جاتیں تو دروازہ بند دیکھ کر دستک نہ دیتی کہ اگر باجی کی نیند خراب ہو گئی تو وہ بہت غصہ ہوں گی۔ وہ میرے پاس نیچے والے پورشن میں ہی بیٹھ جاتی اور اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگتی۔ یہ وہ رات تھی جب کچھ بھی ہو سکتا تھا جس کے بھیانک سائے اس مصوم بچی کی ساری زندگی پر پڑتے۔

ماں کو بھی علم تھا لیکن پیٹ کی آگ بڑی بری چیز ہوتی ہے، کبھی کبھی تو اپنے بچوں کو بھی کھا جاتی ہے۔ جیسے حال ہی میں کمسن رضوانہ کے ساتھ ہوا جو ایک باجی کی بے پروائی کی بھینٹ چڑھی۔ اسے بھی ماں باپ کی بھوک نے مارا ہو گا۔

بچے سالانہ اجرت پر لیے جاتے ہیں

یہ بچی تو صرف ایک دن ہی اپنے مالکان کے گھر رکی۔ یہاں ہزاروں ایسے بچے ہیں جو 10 سے 15 ہزار معاوضے کے عوض اپنے مالکان کے زر خرید غلام بنا دیے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی مختلف نوعیت کے سانحات کا شکار بھی ہوتے ہیں جن میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ قصور ہوتا ہے تو صرف ان دولت مند افراد کا جن کو خدمت گاروں کی تلاش ہوتی ہے یا والدین کا، جو مجبوری کے تحت چند پیسے لے کر اپنے بچے سالانہ بنیادوں پر ملازمت کے لیے بھیج دیتے ہیں اور پھر مہینوں اور سالوں ان کی خبر تک نہیں لیتے۔

گزشتہ سال نے ان مجبور والدین کی مجبوریوں میں مزید اضافہ کیا۔ 2023 بدترین مہنگائی کا سال رہا جس نے گزشتہ سال کے دوران37 فی صد کی انتہائی بلند شرح کو عبور کیا۔ جبکہ کھانے پینے کی اشیاء میں اوسطا 50 فی صد سے ذیادہ اضافے کا ریکارڈ بھی اسی سال قائم ہوا۔ رہی سہی کثر بجلی اور گیس کے بلوں نے پوری کر دی۔ متوسط طبقے کے بہت سے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم چھڑوا کر انھیں کسی نہ کسی کام پر لگانے پر مجبور ہوئے۔

پہلے کام کرنے کے لیے بچے پنجاب کے دور دراز دیہاتوں سے آتے تھے۔ موجودہ ملکی حالات نے پاکستان کے ہر کونے میں کمسن مزدوروں کی فورس میں اضافہ کر دیا ہے۔ عمر کے اس خوبصورت دور میں یہ مزدور بچے کہیں نہ کہیں 2 وقت کی روٹی کی جہدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی تعدلد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے پاس ان کے موجودہ اعداد و شمار تک نہیں ہیں جن کی بنیاد پر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مزدور (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں بچوں کی محنت و مشقت کے بارے میں 21 سال پرانے اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ جن میں بدترین اقسام کی چائلڈ لیبر اور گھروں میں کام کرنے والے بچے شامل نہیں ہیں۔ پاکستان کے ادارہ برائےشمارات نے بچوں کی مشقت کے اعداد و شمار آخری بار ایک سروے کے زریعے سنہ 1996 میں جمع کیے تھے جس کے مطابق ملک میں 33 لاکھ بچے مزدور ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مزدور بچوں کے بارے میں اعداد و شمار کے لیے زیادہ تر این جی اوز کے ڈیٹا کا ہی سہارا لیا جاتا ہے جن کا دائرہ کار عموماً غیر تصدیق شدہ معلومات تک یا اس دن کے حوالے سے مختلف تقاریب منقعد کرانے تک ہی محدود رہتا ہے۔

خواتین گھریلو ملازم رکھنا فخر سمجھتی ہیں

روشن خیال اور پڑھے لکھے طبقوں میں تو سالانہ اجرت پر ملازمین رکھنا اب ایک فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ کمسن ملازمہ رکھنے سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو پر مالکن کی گردن فخر سے اونچی ضرور ہو جاتی ہے۔ آج کے روشن خیال طبقےاور زمانہ جہالیت کے قبائل کی سوچ میں یکسانیت نظر آتی ہے جس کی جیتی جاگتی مثال ہمارے ارد گرد اپنے مالکان کے بچوں کو سنبھالتی ہوئی کم سن ملازمائیں یں۔ یہ معصوم بڑے بڑے ہوٹلز اور دیگر سیاحتی مقامات پراپنے مالکان کے بچوں کو سنبھالے پھرتی ہیں کہ ان کے مالکان اچھی طرح کھانا کھا لیں یا انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔

یہ لکھتے ہوئے میرےسامنے اس آٹھ نو سالہ بچی کاچہرہ گھومنے لگا جو اس تقریب میں 2 چھوٹے بچوں کو سنبھال رہی تھی جہاں میں بھی مدعو تھی۔ یہ تقریب ایک پرائیوٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کے خاندانوں کے لیے منقعد کی تھی۔ ہمارے ہاں عموماً تقاریب میں کھانا دیر سے ہی ملتا ہے۔ بچوں کے لیے کچھ پروگرامز بھی ترتیب دیے گئے تھے اس لیے کھانا 3 بجے کے بعد ہی دیا گیا۔ میرے بچے مجھے کافی دیر سے بھوک کی وجہ سے تنگ کر رہے تھے۔ جیسے ہی کھانا لگا ہر کوئی مصروف ہو گیا۔ مگر اپنے مخصوص حلیے سے پہچانی جانے والی وہ بچی اپنی باجی کے بچوں کو لے کر ہال کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چکر لگاتی رہی اور میں اس کے لیے کچھ نہ کر سکی کیونکہ یہ مہذب اور پڑھے لکھے لوگوں کی تقریب تھی۔

بچوں کے حق میں بنے قوانین کہاں ہیں؟

بین الاقوامی قوانین برائے لیبر کی شق 138-سی کے مطابق ملازمت کی کم سے کم عمر 15 سال ہے لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اس ملازمت سے بچے کی تعلیم اور جسمانی اور ذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان بھی اس قانون کو مانتا ہے اور پاکستانی قانون کے مطابق مزدور کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ بلکہ آئین کی شق 25-اے کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ آپ خو ہی بتائیں کہ کیا ہمارے ملک میں ان قوانین پر کہیں عملدرآمد ہوتا نظر آتا ہے؟

قانون بھی تب حرکت میں آتا ہے جب (سوشل) میڈیا کسی بچے کے اسپتال پہنچنے یا جان سے جانے کی خبر پر شور مچاتا ہے۔ زیادہ تر والدین بدنامی کے ڈر سے معاملہ تھانے کچہری تک جانے ہی نہیں دیتے۔ جو متاثرین قانونی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں انہیں یا تو خاموش کرا دیا جاتا ہے یا پھر وہ انصاف کے حصول کے لیے آئے روز تھانے کچہری کے چکر کاٹ کاٹ کر خود ہی خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیو نکہ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہے۔

کمسن گھریلو ملازمین رکھنے اور ان پر ظلم ڈھائےجانے میں زیادہ تر قصور ہمارے جیسی باجیوں کا بھی ہوتا ہے جو دوسروں کے بچوں کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتیں بلکہ انہیں اپنے بچوں کی خدمت کے لیے ملازم رکھ لیتی ہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ کمسن گھریلو ملازمین پر ظلم کی کہانیاں جلد ہی بھلا دی جاتی ہیں۔ پھر اسی طرح کی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں جن کےصرف کردار ہی بدلتے رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp