مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کے خلاف نااہلی کیس پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ جبکہ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ابوذر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر سوال ہے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم ابھی میرٹ پر دلائل دینے کا نہیں کہہ رہے اگر میرٹ پر آجائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب نوٹسسز جاری ہوتے ہیں تو پھر فریق کو جواب جمع کرنا ہوتا ہے، کیس کے فریق نے تین مہلتوں کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان ممبر قومی اسمبلی اور پارٹی کے سربراہ ہیں، غلط بیان حلفی جمع کرنے کی سزا نااہلی ہے۔
دوران سماعت عدالت نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا گیا کہ کیا ضمنی انتخاب میں بیان حلفی جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں؟ آپ کے خیال میں اگر غلط بیان حلفی جمع کرایا گیا تو آپ توہین عدالت دائر کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی استدعا ہے کہ غلط بیان حلفی پر نااہلی ہوتی ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس میں کہا گیا کہ استعفیٰ دینے سے آپ کا ماضی دھل نہیں جاتا۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ مشرف دور میں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی ڈگری لازمی قرار دی گئی تھی، جعلی ڈگری پر سمیرا ملک کیس میں سپریم کورٹ نے کیا ڈائرکشن دی تھی۔
چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار سے کہا کہ جس چیز کی آپ بات کر رہے ،وہ بیان حلفی نہیں بلکہ سٹیٹمنٹ ہے۔ جس دستاویز کی آپ بات کر رہے وہاں تو باپ لفظ کا ذکر ہی نہیں ہے۔
عدالت نے وکیل درخواست گزار سے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کیس میں تاحیات نااہلی کو صرف مقررہ مدت تک کیلئے کیا تھا ،اس کیس میں بھی آپ دیکھ لیں کہ کیا نااہلی تاحیات ہوگی یا مقررہ مدت تک؟
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیصل واوڈا نے عدالت میں آکر معافی مانگی اور شہریت بھی چھوڑ دی تھی اسی وجہ سے انہیں ریلیف مل گیا۔
جس پر عدالت نے کہا کہ کل کو تاحیات نااہل شخص آکر معافی مانگے تو کیا وہ اہل ہو جائے گا، یعنی کہ اگر کوئی معافی مانگنے آجائے تو وہ تاحیات نااہل نہیں ہوگا اور جو معافی نہ مانگے وہ تاحیات نااہل ہوگا۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ڈیکلریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو بہت بعد میں پتہ چلے کہ اس کا ایک بچہ بھی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کافی عرصہ کسی اور احساس میں رہا ہو؟ سول میٹرز میں ہمارے سامنے ایسے بہت سارے کیسسز موجود ہیں، کیا اس بنیاد پر کوئی شخص نااہل ہو سکتا ہے؟
عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل دو بجے تک ملتوی کردی۔