لگ بھگ 13 سال میڈیا میں گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند ہی باکردار سیاستدان ہوں گے۔ کم از کم مجھے اپنے صحافتی سفر کے دوران کوئی ایسا سیاستدان معدودے چند نہیں ملا جس کا دامن مالی بدعنوانی کے داغ سے پاک ہو۔ اس اکھاڑے میں کردار کے غازی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے۔
میں سب کو ایک ہی فہرست میں نہیں ڈال رہا، مگر ہر ایک کہیں نا کہیں، کسی نا کسی سیکنڈل کا کبھی نا کبھی حصہ رہا ہے۔ بعضے تو ابھی تک کسی نہ کسی سکینڈل یا مقدمے یا ریفرینس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان جیسوں پر مخالفین کی جانب سے بھی نیب یا ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن کے کسی کیس کی وجہ سے تنقید کے نشتر برسانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال ان چند لوگوں میں شاید سرِفہرست ہوں گے جو کم از کم کسی قسم کی مالی بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ میں نے شاہد خاقان عباسی کو بطور وزیرِ پیٹرولیم اور وزیراعظم بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بطور وزیر شام 5 بجے کے بعد کبھی سرکاری ڈرائیور یا گاڑی بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔
بطور وزیراعظم کم سے کم سرکاری اخراجات اور پروٹوکول کا استعمال کیا مگر نیب کے کالے قوانین اور اس وقت کی حکومت کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھا کر ان کو 6 سال نیب کے چکر بھی لگوائے گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ موت کی چکی میں رکھ کر توڑنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی۔ لیکن سیاست اور مشکلات کی ایک لمبی تاریخ جس میں جنرل مشرف کا آمرانہ دور اور کراچی جیل بھی شامل ہے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو توڑ نا سکی اور وہ ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے اپنے مؤقف پر قائم رہے۔
احسن اقبال جیسے لوگ کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ میں نے 2018 اور 2024 کے انتخابات میں ان کے حلقے ناروال کا الیکشن کور کیا۔ احسن اقبال کا حلقہ پنجاب کے دیگر حلقوں سے بہت آگے ہے جہاں ہسپتال، یونیورسٹیز، اور سڑکیں بہت بہتر ہیں۔ انہیں ناروال سپورٹس سٹی اسیکنڈل مِیں نامزد کیا گیا جو 2018 میں تقریباً مکمل تھا۔ نیب تحیقیقات کے باعث کام رک گیا اور ناروال کے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں سے ایک لمبے عرصے کے لئے دور کر دیا گیا۔ یہاں پھر نیب استعمال ہوا اور مقصد صرف انا کی تسکین تھی جو پاکستان کی تاریخ میں ہر حکمران کرتا آیا ہے۔ آپا نثار فاطمہ کا بیٹا ایک قابل محنتی اور دیندار شخصیت ہے جو ہر وقت پاکستان کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔
اصل دکھ اور تکلیف مفتاح اسماعیل کے آنسو دیکھ کر ہوئی۔ بیرون ملک سے ایچ ڈی ہولڈر مفتاح اسماعیل کو بھی ایل این جی اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا۔ نا صرف یہ بلکہ ان کی اہلیہ اور بیٹی کی الماریوں کی تلاشی تک لی گئی۔ ہم سیاسی مخالفتوں میں پتا نہیں کتنا گریں گے۔ مائیں بہنیں بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں، ہم ان کے تقدس کا بھی خیال نہیں کرتے۔ صرف ایک مخالف بیان دلوانے کے لیے احترام بھی چھوڑ دیا۔ جس مفتاح اسماعیل کو میں جانتا ہوں، وہ انتہائی نفیس انسان ہے، محبت کرنے والے، نبھانے والا، عزت دینے والا۔ لیکن کوئی جواب دے گا کہ وہ رویا کیوں؟ اس لیے نہیں کہ نیب نے کیس بنایا، اس لیے بھی نہیں کہ گرفتار ہوا۔ بلکہ اس لیے کہ اس کو توڑنے کے لیے کم ظرف لوگوں نے اس کے گھر کا تقدس پامال کیا۔ یہاں بھی استعمال نیب ہی ہوا۔
یہ تینوں شخصیات اپنے خلاف بنائے گئے کیسز میں باعزت بری ہو چکی ہیں۔ کیا نیب جیسا بدترین ادارہ جواب دے گا کہ ان شخصیات کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کے کردار کی جو دھجیاں بکھیری گئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مخالفوں نے پگڑیاں اچھالی، سوشل میڈیا پر کردار کشی ہوئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک و قوم کے قیمتی وسائل اور وقت کا بے دردی سے ضیاع کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
لیکن نیب کیوں جواب دے گا۔ وہ تو خود اس گھناؤنے کھیل کا حصہ رہا ہے، وہ کیوں جواب دے گا؟ دنیا بھر میں احتساب ہوتا ہے مگر پاکستان میں احتساب کے نام پر انتقام ہوتا ہے۔ یہاں تو احتساب کے بہانے ذاتی مقاصد کا حصول ہوتا ہے، انا کی تسکین کی جاتی ہے، اور سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
ایسے اداروں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ کوئی بھی حکومت سیاسی انتقام کے لیے ایسے اداروں کو استعمال نہ کر سکے۔ تب جا کر ہی کوئی شاہد خاقان، احسن اقبال، یا مفتاح اسماعیل محض سیاسی مخالف ہونے کی بنیاد پر جیل کی چکی پیسنے سے محفوظ رہے گا۔ بصورتِ دیگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ قوم بھی احستاب کے انتقام کی بھینٹ چڑھتی رہے گی۔