روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کریملن میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ کے مابین بہت سے مشترکہ مفادات اور اہداف ہیں۔
اسپوتنک نیوز ایجنسی کے مطابق روسی صدارتی دفتر (کریملن) نے ماسکو میں روس اور چین کے صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات میں کہا ہے کہ روس اور چین کے درمیان تعلقات کی توسیع کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس تسلسل میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے میں اضافہ ہو کر 185 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
روسی صدر نے کہا کہ ہم نے یوکرین کی صورتحال پر چین کے ثالثی کردار کا بغور جائزہ لیا ہے۔ لہٰذا روس ہمیشہ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہے اور چین کے امن منصوبے کا احترام کرتا ہے۔
پیوٹن نے شی جن پنگ کو چین کا دوبارہ صدر منتخب ہونے پر دلی مبارکباد بھی پیش کی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے یقین ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں روسی عوام آپ کو دوبارہ منتخب کریں گے۔
چینی صدر نے کہا کہ دنیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر، دو طرفہ تعاون اور شراکت داری کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ ہم چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے روسی مثبت نقطۂ نظر کی قدر کرتے ہوئے اہداف کے حصول کے لیے کوشش کریں گے۔
اس سے قبل چینی صدر کا ماسکو میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ دونوں صدور کی ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی قیادت میں روس خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
چینی صدر نے روس کا یہ دورہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے روسی صدر کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔
چینی صدر نے کہا ہے کہ آئی سی سی کو دہرے معیار اور سیاست سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت مملکت کے سربراہان کو استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے مطابق یوکرین تنازع کا حل مذاکرات میں ہے۔ روس اور چین حالیہ کچھ برسوں میں سفارتی محاذ پر ایک دوسرے کے بہت قریب آئے ہیں۔ روس یوکرین تنازع حل کرنے کے بجائے روس کے خلاف مہم چلائی گئی جس کی مذمت کرتے ہیں۔
یاد رہے چین کی جانب سے گزشتہ ماہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک منصوبہ جاری کیا تھا۔ جس میں امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس حوالے سے امریکا نے ردعمل میں کہا تھا یہ امن منصوبہ تاخیری حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا دنیا روس کی کسی بھی چال سے بیوقوف نہیں بننے والی جس میں وہ جنگ منجمد کرنے کے لیے اپنی شرائط لاگو کرے۔
چینی امن منصوبے میں یہ نہیں کہا گیا کہ روس کو یوکرین سے دست بردار ہونا چاہیے۔ البتہ اس نے تمام ممالک کی خود مختاری کا احترام اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بات کی ہے۔