26 مارچ 2023 کو خیبر پختونخوا کی ضلع شانگلہ میں چینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگردی پولیس کی ٹیم مواقع سے شواہد جمع کر رہی تھی کہ اس دوران پتھروں کے نیچے سے ایک ٹوٹا ہوا موبائل ملا۔ ابتدائی طور پر تحقیق کاروں کو لگا کہ یہ حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں سے کس کا ہو گا، تاہم تفتیش کے دوران یہ موبائل دہشتگردی کے اس واقعے کے تمام سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈز کو بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔
محکمہ انسداد دہشتگردی پولیس خیبر پختونخوا نے جائے وقوع کی تحقیقات کی مکمل رپورٹ جمع کرا دی ہے۔ 8 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کی کاپی نیوز نے حاصل کر لی ہے۔
مزید پڑھیں
یاد رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد سے چینی انجینیئرز کا قافلہ داسو جا رہا تھا کہ اسے شاہراہ قراقرم پر شانگلہ کے علاقے بشام میں لاہور نالہ کے مقام پر خودکش کار سوار نے نشانہ بنایا اور بارود سے بھری گاڑی چینی انجینیئرز کی گاڑی سے ٹکرا دی۔ جس سے کوسٹر گاڑی 150 فٹ گہری کھائی میں گرنے سے 5 چینی انجینیئرز اور پاکستانی ڈرائیور جان کی بازی ہار گئے تھے۔
جلا ہوا موبائل
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق حملے کے روز جائے وقوع پر سی ٹی ڈی ٹیم شواہد اکٹھا کر رہی تھی کہ اس دوران انہیں ایک ٹوٹا اور جلا ہوا موبائل ملا۔ رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر لگا کہ موبائل قافلے میں شامل کسی کا ہو سکتا ہے، لیکن رابطہ کرنے پر کسی نے بھی موبائل کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جس جگہ سے موبائل ملا وہاں خودکش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کے ٹکڑے پڑے تھے۔ جبکہ چینی انجینیئرز کو لے جانے والی گاڑی 150 فٹ گہری کھائی میں گر گئی تھی۔
موبائل فون اور سم سے تفتیش کا آغاز
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق تفتیش کاروں نے تفتیش کا آغاز جائے وقوع سے ملنے والے موبائل فون اور زونگ سم سے کیا۔ سم کے ڈی سی آر سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سم استعمال کرنے والا واقعے کے روز صبح 8 بجے بشام کے ایک ہوٹل کے قریب واقع موبائل ٹاور کے دائرے میں آیا، یہ گزشتہ 10ماہ میں پہلی بار اس دائر میں آیا تھا۔
کراچی لانڈھی کی سم
رپورٹ کے مطابق پولیس تفتیش کاروں نے سم کی تمام تفصیلات حاصل کیں اور سم کے مالک کی تلاش شروع کر دی۔ سم نذیر حسین کے نام رجسٹرڈ تھی جو مانسہرہ کی علاقے اوگی کا مستقل رہائشی ہے۔ پولیس سم کے مالک تک پہنچ گئی۔ دوران تفتیش سم کے مالک نے بتایا کہ اُس نے کراچی کے علاقے لانڈھی نمبر 3 سے 5 اپریل 2023 کو سم لی تھی۔ جو بعد میں اوگی ہی کے رہائشی اپنے قریبی رشتہ دار محمد عارف کو دے دی تھی۔
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق موبائل سم خودکش حملہ آور کو دینے والے کا پتا لگانے کے لیے تفتیش کاروں نے سم کا مکمل ڈی سی آر نکلوایا، جس کے مطابق موبائل سم کراچی سمیت مانسہرہ، بٹگرام، ہری پور اور شانگلہ میں زیر استعمال رہی تھی۔ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ سم ڈگر بیر مانسہرہ سے حملے کے روز صبح 8 بجے شانگلہ پہنچی تھی۔ اور دن ایک بج کر 5 منٹ پر حملہ ہوا تھا۔
آخری بار سم میں لوڈ کرنے والے کی شناخت
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق تفتیش کاروں نے سہولت کاروں تک پہنچنے کے لیے موبائل کمپنی سے مزید معلومات طلب کیں۔ جس پر پتا چلا کہ مذکورہ سم میں آخری بار ایزی لوڈ حملے سے 3 روز قبل 22 مارچ 2023 کو اوگی ٹاؤن مانسہرہ کے دکان سے ہوا تھا۔ جبکہ خودکش حملے میں استعمال موبائل فون کے آئی ایم ای نمبر سے بھی مزید تفصیلات سامنے آئیں۔ جس کے مطابق مذکورہ موبائل میں ایک اور سم استعمال ہوئی تھی جو اوگی ہی کے رہائشی عدل شہباز کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔ جبکہ ایزی پیسہ شاپ کے مالک نے بھی عدل شہباز کو پہچان لیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد موبائل سم کی مدد سے 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
اہم سہولت کار کی گرفتاری
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق موبائل فون اور سم سے ملنے والی معلومات کی بنا پر پولیس نے مختلف کارروائیوں میں 4 ملزمان کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش شروع کر دی ہے۔ جن میں مبینہ طور پر اہم سہولت کار بھی شامل ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی صوابی کے ایک مدرسے سے اہم گرفتاری عمل میں لائی ہے اور ملزم جو اہم سہولت کار تھا، کی شناخت عدل شہباز کے نام سے کی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ عدل شہباز نے ابتدائی تفتیش کے دوران خودکش حملے میں سہولت کاری تسلیم کی ہے۔
حملے میں ٹی ٹی پی ملوث ہے
وی نیوز کو حاصل رپورٹ کے مطابق خودکش حملے کی تفتیش کے دوران پتا چلا کہ چینی انجینیئرز پر حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان ملوث ہے۔ اس حملے کی افغانستان میں منصوبہ بندی ہوئی اور حملہ عدل اور دیگر سہولت کاروں کی مدد سے کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مبینہ دہشتگرد عدل شہباز نے تسلیم کیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر ٹی ٹی پی سے وابستہ ہے اور صوابی کے مدرسے سے منسلک ہے۔ عدل شہباز نے تسلیم کیا ہے کہ چینی انجینیئرز پر حملے کی تمام منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی جب کہ وہ اور دیگر ساتھی اس منصوبے کا حصہ تھے۔
خودکش حملہ وار کی گاڑی افغانستان سے آئی تھی
عدل نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ انہوں نے خودکش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کو چکدرہ سے وصول کیا تھا، جو افغانستان سے آئی تھی۔ اور نان کسٹم پیڈ تھی۔ رپورٹ کے مطابق عدل کو ٹی ٹی پی کے مقامی دہشتگرد حضرت بلال عرف فرمان نے چکدرہ کے ایک بارگین سے گاڑی لانے کا کہا تھا۔
عدل کی نشاندہی پر پولیس نے بارگین کے مالک کو گرفتار کرلیا ہے، جس نے پولیس کو بتایا کہ افغانستان کے نمبر خان نامی شخص نے کال کرکے مذکورہ گاڑی افغانستان سے پاکستان اسمگلنگ کرنے کا کہا تھا، پاکستان میں فرمان نامی شخص نے یہ گاڑی خریدی ہے جب کہ افغانستان ہی میں قاری اسد نامی شخص نے گاڑی کی قیمت ادا کی تھی۔ بارگین کے مالک کو 2 لاکھ 61 ہزار روپے گاڑی پاکستان لانے کے لیے ادا کیے گئے تھے۔ گاڑی افغانستان سے بلوچستان اور پھر ڈی آئی خان سے چکدرہ پہنچائی گئی تھی۔
عدل کے مطابق وہ اور واجد نامی اس کے کزن نے چکدرہ کے ہوٹل میں رات قیام کیا اور صبح گاڑی لے کر روانہ ہو گئے۔ وہ گاڑی بٹگرام لے جا رہے تھے کہ شانگلہ ٹاپ پولیس چیک پوسٹ پر انہیں روک بھی گیا۔ عدل کے مطابق انہوں نے گاڑی بٹگرام سے لا کر فرمان کے حوالے کی تھی۔
خودکش حملہ اور کب پاکستان پہنچا اور کس نے مدد کی
سی ٹی ڈی رپورٹ میں خودکش حملہ آور کی تصویر سمیت تمام تفصیلات موجود ہیں۔ عدل سے تفتیش کے دوران جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق چینی انجینیئرز پر مبینہ خودکش حملہ آور متقی (Muttaqi) نامی افغان باشندہ تھا، جو حملے سے 30/35 دن پہلے پاکستان آیا تھا۔
عدل نے پولیس کو بتایا کہ وہ حضرت بلال عرف فرمان کے ساتھ رابطے میں تھا جو ٹیلی گرام ایپ پر ہدایت دیتا تھا۔ عدل کے مطابق واقعے سے چند دن پہلے فرمان نے اُسے 2 مہمانوں کو لانے کا کہا، جو مانسہرہ کے فیاض اسپتال کے قریب موجود تھے۔ عدل ان مہمانوں کو اسی وقت تورغر میں فرمان کے پاس لے گیا، جہاں اُس نے بتایا تھا کہ مہمانوں میں ایک خودکش حملہ آور ہے۔
ماسٹر مائنڈ کون؟
عدل نے پولیس کو بتایا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ حضرت بلال عرف فرمان ہے، جو کوہستان کا رہائشی ہے۔ اور تمام معاملات کو دیکھ رہا تھا۔ گاڑی اور خودکش حملہ آور عدل شہباز نے خود اس کے حوالے کیا تھا۔ جبکہ حملے سے قبل وہ تورغر میں تھا اور خودکش حملہ آور بھی اس کے ساتھ تھا۔
عدل کے مطابق فرمان کیساتھ مولوی یاسر اور ابوبکر عرف سواتی بھی موجود تھے۔ عدل نے انکشاف کیا کہ فرمان اور دیگر ساتھ ٹی ٹی پی مانسہرہ کے عہدیدار ہیں۔ابوبکر کی ذمہ داری نئی بھرتیاں کرنا ہے، جبکہ قاری اسد جو افغانستان میں ہے مانسہرہ کا سابق امیر ہے۔
سی ٹی ڈی پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کی مزید تفتیش کیساتھ ساتھ دیگر دہشتگردوں کی گرفتاری کے لیے کاروائیاں جاری ہیں۔