گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستانیوں کی بڑی تعداد بہتر روزگار کی خاطر ملک سے باہر جا چکی ہے یا جانے کی منتظر ہے، افرادی قوت بیرون ملک جانے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سلسلے میں اس افرادی قوت کو باعزت طریقے سے قابلیت کے اعتبار سے روزگار کی فراہمی کے لیے جو اقدامات اٹھانے چاہیے تھے وہ اب تک نہیں اٹھائے جا سکے ہیں۔
مزید پڑھیں
اس حوالے سے سابق صدر پاکستان اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز عدنان پراچہ نے بتایا کہ پاکستان میں موجود ایجینٹس یا تو رجسٹرڈ نہیں یا ان کے پاس ایسا کوئی مکینزم نہیں جس سے یہاں سے جانے والا نوجوان اپنی قابلیت کی بنیاد پر کام کرسکے، ان کا کہنا تھا کہ قابلیت کو جانچنے کے لیے دیگر ممالک ہنرمندی کی جانچ کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر متعلقہ فرد یا افراد کو نوکری فراہم کی جاتی ہے۔
اب جبکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، جاپان اور جرمنی سمیت کئی ممالک کو ماہر افرادی قوت کی ضرورت ہے لیکن ہم اس ضمن میں انہیں درکار افرادی قوت فراہم نہیں کر پا رہے جس کی وجہ سے نوجوان روشن مستقبل کے موقع کے منتظر ہیں لیکن ان کے باہر جانے کی امید بر نہیں آرہی۔
بات کریں سعودی عرب کی تو وہاں پہلے سے ہی پاکستانی مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور سعودی عرب جیسے ترقی یافتہ ملک کی افرادی قوت کے حوالے سے طلب بڑھتی تو جا رہی ہے لیکن پاکستان اسے پورا کیوں نہیں کر پارہا ہے یا اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟
پاکستان اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے سابق سربراہ اور تجزیہ کار محمد عدنان پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب ہر سال پاکستان سے 10 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرے گا، یہ افرادی قوت نیوم سٹی سمیت دیگر پروجیکٹس کا حصہ ہوگی۔
لیکن کیا وجوہات ہیں کہ ہم سعودی عرب جانے والی ماہر افرادی قوت میں اضافہ نہیں کر پائے؟ عدنان پراچہ سمجھتے ہیں کہ اس اعلان کے بعد کچھ مشکلات کا سامنا ہے جنہیں وزارت سمندر پار پاکستانی دور کرسکتی ہے۔
’2600 میں سے 2400 اوورسیز پروموٹرز ایسے ہیں جو پاکستان میں موجود سعودی سفارتخانے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں اگر یہ رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں تو سعودی عرب کی ترقی میں جو ہماری افرادی قوت کا کردار ہے وہ مزید بہتر ہو جائے گا اور یہ پروموٹرز اچھے انداز سے بہترین افرادی قوت مہیا کرسکیں گے۔‘
عدنان پراچہ کے مطابق اس وقت پاکستان 4 سے 5 لاکھ افرادی قوت سعودی عرب بھیج رہا ہے اگر اوورسیز پروموٹرز کی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو جائے تو یہ تعداد 7 سے 8 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ’ہمیں اپنے نیوٹیک اور ٹیسٹنگ سسٹم کو بہتر بنانا کی ضرورت ہے تا کہ ہماری قابل افرادی قوت وہاں جا سکے اور تعداد بھی بڑھتی جائے۔‘
عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جو ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور پاکستانی نوجوان بھی اسی مذہبی بھائی چارے اور ساتھ ہی مقاماتِ مقدسہ ہونے کے ناطے وہاں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
عدنان پراچہ کے مطابق ہماری نوجوان نسل کو اچھی نوکریاں ملنے سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ ’ہمیں صرف اپنا طریقہ کار بہتر بنانا ہے جس سے ہمارے برادر اسلامی ملک کو فائدہ پہنچے گا اور ساتھ ہی ہماری معیشت کو زرمبادلہ کی مد میں استحکام ملے گا۔‘