گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل کی جانب سے طلب کردہ بلوچستان اسمبلی کا پہلا اجلاس صبح 20 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا، جس کے فوراً بعد جامعہ بلوچستان کے ملازمین، زمیندار ایکشن کمیٹی، فیڈرل لیویز فورس اور بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں بلوچستان اسمبلی پہنچے۔
صوبائی اسمبلی کے باہر مظاہرین نے اپنی احتجاجی ریلی کو دھرنے میں تبدیل کر دیا اس دوران مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور سیاہ پرچم اٹھا کر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
احتجاج میں موجود بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث وہ نان شبینہ کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں، تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے رمضان اور عید کے موقع پر بھی لوگوں سے ادھار مانگ کر گزر بسر کیا۔
احتجاجی مظاہرین کے مطابق بلوچستان یونیورسٹی کے سالانہ اخراجات 4 ارب روپے سے زائد ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومت ہر 2 ماہ بعد بیل آؤٹ پیکج کے تحت ملازمین کو ایک قلیل سی رقم فراہم کرتی ہیں، جو مسئلے کا مکمل حل نہیں۔
انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے مستقبل فارمولا ترتیب دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بجٹ میں مکمل رقم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملے کا مکمل حل تلاش کیا جاسکے اس ضمن میں انڈاؤمنٹ فنڈ بھی قائم کیا جائے۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ایوب اسٹیڈیم سے بلوچستان اسمبلی تک احتجاج ریلی نکالی گئی جسے بلوچستان اسمبلی کے باہر دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا، مظاہرین کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتوں کی غیر سنجیدگی ، کیسکو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے زراعت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
مظاہرین کے مطابق 2022 میں سیلاب سے زمینداروں کو اربوں روپے کے نقصانات کاسامنا کرناپڑا، سیلاب سے قبل ٹڈی دل نے فصل اور باغات تباہ کردیے تھے جبکہ حالیہ بارشوں اور تیز ژالہ باری سے بھی زمینداروں کو بھاری نقصانات ہوئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے صوبائی اور مرکزی حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔
مظاہرین نے شکایت کی کہ فصل اور باغات کو پانی کی ضرورت کے وقت بجلی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے،کیسکو کی ہٹ دھرمی کے باعث زمینداروں کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل نہیں ہو جاتے 8 سے 10 گھنٹے تک کی بجلی فراہم کی جائے۔
بلوچستان اسمبلی کے باہر مظاہرے میں موجود بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے احتجاجی ملازمین نے مطالبہ کیا کہ ان کے 617 ملازمین کو گزشتہ دور حکومت میں مستقل کیا گیا تاہم مستقل ہونے والے ملازمین کو انفرادی طور پر آرڈر جاری نہیں ہوئے، جس کے باعث ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے، مظاہرین نے متاثرہ ملازمین کی انفرادی مستقلی کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کی بھی واپسی کا مطالبہ کیاہے۔
فیڈرل لیویز فورس کی جانب سے بھی صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنا دیا گیا، مطاہرین کے مطابق ان کے 450 سے زائد ملازمین کو نہ صرف نوکریوں سے یک جنبشِ قلم برخاست کردیا گیا بلکہ عرصہ دراز سے مروجہ فیڈرل لیویز فورس کے رول کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے ملازمین کے بچوں کو نوکریوں پر نہیں لگایا جا رہا۔
مظاہرین نے فی الفور فیڈرل لیویز فورس کے برطرف ملازمین کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک سے 3 سال کی تنخواہوں کی فوراً ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا ہے، اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی نے اسمبلی کے باہر دھرنے پر بیٹھے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور ان کے مطالبات کے حل کی یقین دہانی کروائی۔