کیا ہم واقعی ماں سے محبت کرتے ہیں؟

اتوار 12 مئی 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہتے ہیں اگر کسی بینچ پرایک نوجوان اور ایک بوڑھا خاموش بیٹھے ہوں تو وہ یقیناًباپ بیٹا ہوں گے۔ یہ کافی پرانی بات ہے، جدید سماج میں کسی حد تک بچوں کے ساتھ دوستانہ رویے کا تصوررواج پاچکا ہے، اور کچھ صورتوں میں دوستی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ بچے سمجھنے لگتے ہیں نئے زمانے میں ان(ماں باپ) کا جواز کچھ بھی نہیں، جو اپنی جگہ ایک اورمسئلہ ہے۔ لیکن تعلق کے ان ہر دواقسام کےنتائج کی بنیاد پر کیا محبت پر جبر کو ترجیح دی جا سکتی ہے؟یہ کیا کہ پالتو جانوروں کے ساتھ تو پیار سے پیش آیا جائے لیکن بچوں کو شیر کی آنکھ سے دیکھا جائے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ رویہ والدیعنی باپ تک ہی محدود دکھائی دیتا ہے، جبکہ ماں کو شفقت اور محبت کی دیوی سمجھا جاتا ہے۔

ماں کے معاملے میں یہ سب الٹ کیوں جاتاہے ؟ ’ماواں ٹھڈیاں چھاواں‘ کیوں کہا جاتا ہے، ماں کی ممتا کو بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ہر حال میں حفاظت کرتی ہے۔ خود پر موسموں کا جبر سہتی ہےلیکن بچوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔ نچلے اور کہیں کہیں متوسط طبقے میں بھی یہ رواج ہے کہ وہ سب سے آخرمیں کھاناکھاتی ہے، اوراچھے کھانے میں سے کچھ بچ جائے توٹھیک، نہیں تو روکھی سوکھی کھا کے شکر ادا کرتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد شوہر اور بچوں کے لیے جینا ہوتاہے۔ بچے ماںسے دل کی ساری باتیں کرلیتے ہیں لیکن باپ کے سامنے جاتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ماں اس طرح ڈراتی نہیں، وہ احترام نہیں مانگتی، اسی لیے تووہ محبت کا پیکر کہلاتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ عورت کیا کچھ قربان کررہی ہے؟وہ صرف بچے پیدا کرنے کے حوالے سے کتنے خطرات سے دوچار ہے؟ان خطرات کے باوجود کبھی بیٹے کی امید میں تو کبھی کسی اور امید میں زچگی کے عمل سے بار بارگزر رہی ہے۔ ذرا دنیا بھر کے اعدادوشمار پر نظر ڈال لیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق صرف ایک سال یعنی 2020 میں زچگی کے دوران مرنے والی عورتوں کی تعداددولاکھ ستاسی ہزار تھی، جن میں سے 95 فی صد اموات غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوئیں اور ان میں سے بیشتر کو بہتر طبی سہولتوں کے ذریعے بچایا جا سکتا تھا۔

ان سب قربانیوں کے باجوودہم باپ کے کارنامے توبڑھ چڑھ کربیان کرتے ہیں، لیکن ماں کا ذکرہمارے خاندان اور دوستوں کی محفل میں تقریباً عنقا ہے۔ اس کا ذکر ہو بھی تو کیسے کہ اس کے کریڈٹ پر کوئی میڈل ہی نہیں ہوتا، کوئی بیرونی کامیابی ہی نہیں ہوتی۔ کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہوتا جو اس نے گھر سے باہرسرانجام دیا ہو اور جسے فخریہ بیان کیا جا سکے۔ اگر کہیں ذکر ہوتا بھی ہے توماں کے ہاتھ کے ذائقے کا۔ یہ بھی ٹھیک ہے، جب اس کا کام ہی رسوئی تک محدود تھا اور اس نے عمر بھر یہی کیا تو اسی کو یاد کرنا ہے نا! کمال تویہ ہے کہ اس کمزوری اور محدودیت کو مثبت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ گاؤں ہو کہ شہر، اکثر ماؤں کی زندگی کام کام اورصرف کام کی عملی صورت ہے لیکن ان کااعتراف نہ ہونے کے برابر۔

ادب سے لے کر فلم، ٹی وی تک ہر جگہ ماں کی قربانی کے جذبے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ قدر ت اللہ شہاب’ ماں‘ لکھتا ہے تو اس کی قربانیوں اور اپنی ذات پر کچھ نہ خرچ کرنے کو جذباتی انداز میں بیان کرتا اور قارئین کے جذبات سے کھیلتا ہے۔ دیومالا میں پاروتی ملتی ہے تو ثقافت میں بھی مختلف رسوم و رواج کے پھندوں سے لٹکی شبیہیں دکھائی دیتی ہیں۔ ہندوستانی سینما بھی یہی دکھاتا ہےکہ ماں کسی نہ کسی رشتے کی خاطرقربانی دے رہی ہے۔

کیاہم نے کبھی اس پر غور کیاکہ ہمارے گھروں میں سب کچھ معمول کے مطابق کیسے چل رہا ہوتا ہے۔ کیا اس طرف کبھی دھیان جاتا ہے کہ اس کا سبب کون ہے؟جیسے جسم کے سب اعضا خود بخود کام کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح گھر میں سب خود بخود ہو رہا ہوتا ہے۔ اور اچانک ماں چلی جاتی ہے۔ ۔ ۔ سب کچھ جیسے رک سا جاتا ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے، گھر اور رشتے بے ترتیب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ماں کے ہوتے ہوئے کسی کویاد ہی نہیں رہتا کہ ماں کو آخری بار کب ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے اور کب اس کا مکمل چیک اپ کرایا تھا۔ ایک عورت بچے پیدا کر نے کے بعد جسم میں کن کمیوں کا شکار ہو چکی ہوتی ہے، اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ ہم ماں کو محبت او راحترام کے سنگھاسن پر دیوی بنا کر بٹھا دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس پرکیابیت رہی ہے۔ اس کی ضروریات کیا ہیں؟

کئی برس قبل دیار ِ غیر میں آباد ہونے کا ارادہ کیا۔ رخصت کرتے وقت ماں بظاہر مطمئن تھی۔ میں اس کی اس مضبوطی کا سبب جانتا تھا۔ اسے ڈر تھا، کہیں اس سفر میں میرے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ وہ سارے خواب جو اس نے مرے ماتھے پر پہلے پیار کا بوسہ سجاتے وقت دیکھے تھے، ادھورے ہی نہ رہ جائیں۔ جب ایک دن تھک ہار کرواپس لوٹا تو سب چہرے ویسے ہی ترو تازہ ملے، مگر ماںکا رنگ بہت زرد پڑ چکا تھا۔ معلوم ہواکہ اماں میری غیر موجودگی میں بیمار رہی تھیں، لیکن مجھے کم کم بتاتی تھیں کہ مجھے وہاں پریشانی ہو گی۔ دیکھا!میں بھی اپنی تحریرماں کی ممتا پر ہی ختم کر رہا ہوں۔

میری معروضات کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باپ بچوں کے لیے قربانی نہیں دیتا، معاملہ یہ ہے کہ بچے پیدا کرنے کا عمل عورت کو جسمانی طور پر زیادہ کچوکے لگاتا ہے اور اسے کئی طرح کے مسائل اورجسمانی کمزوریوں اور کمیوں کا شکار کردیتا ہے۔ ماؤں پر خاص طور پر بات کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج ماؤں کا عالمی دن ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp