چلیے اب آئرلینڈ کے ہاتھوں بھی رسوائی قبول کیجیے

جمعہ 10 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جون 2024 میں ٹی20 ورلڈ کپ کا آغاز ہورہا ہے، یعنی اب ایک مہینہ بھی نہیں ہے اور قومی کرکٹ ٹیم کی حالت دیکھیے کہ پہلے نیوزی لینڈ کی ایک کمزور ترین ٹیم نے پاکستان میں پاکستانی ٹیم کو سیریز جیتنے سے روکا اور اب آئرلینڈ نے پہلے ٹی20 میچ میں پاکستان کی مضبوط ٹیم کو شکست سے دوچار کردیا۔ سمجھ نہیں آرہا کہ اسے شکست کہا جائے یا پھر رسوائی، میرا خیال ہے کہ اسے رسوائی کہنا ہی بہتر رہے گا۔

اس ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم میں بہت ساری تبدیلیاں ہوئیں، قومی ٹیم نے ملٹری ٹریننگ لی، پھر اسی ٹریننگ کے دوران کپتانی کا سہرا ایک مرتبہ پھر بابر اعظم کے سر سجا، محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی ہوئی، اعظم خان پر مکمل بھروسہ کیا گیا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اور قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

پھر ٹھیک 4 دن پہلے وزیر داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیف سینیٹر محسن نقوی نے اعلان کیا کہ ورلڈ کپ جیتنے پر ٹیم کے ہر کھلاڑی کو ایک ایک لاکھ ڈالر بطور انعام دیا جائے گا، لیکن آئرلینڈ کے خلاف پہلے میچ میں جو کارکردگی ہمیں دیکھنے کو ملی ہے، اس کے بعد پی سی بی کے یہ پیسے بچتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔

آئرلینڈ کے خلاف آج کا میچ بدترین براڈکاسٹنگ کے باوجود پورا دیکھا اور اس لیے دیکھا کہ ٹیم کی صورتحال کافی حد تک واضح ہوجائے گی اور واقعی سب کچھ کھل کر سامنے آ بھی گیا۔

مجھے اپنے بچپن کے وہ قوانین آج بھی یاد ہیں کہ جس کا بلا اور بال ہوگی وہ اوپن بھی کرے گا، بولنگ بھی کرے گا اور کپتان بھی وہی ہوگا، مگر قومی ٹیم میں یہ قوانین کس نے لاگو کیے ہیں؟ یہ کہاں طے ہوا ہے کہ Rizbar یعنی رضوان اور بابر میں سے کوئی ایک کھلاڑی لازمی اوپننگ کرے گا؟ یہ ہم کس طرح کی کرکٹ کھیل رہے ہیں؟ 20 اوور کی کرکٹ میں ابتدائی 6 اوورز سب سے اہم ہوتے ہیں مگر آج بھی ہم نے 6.33 کی اوسط سے محض 48 رنز ہی بنائے۔ اس وقت تک صائم ایوب نے 14 گیندوں پر 21 رنز بنائے تھے جبکہ بابر اعظم 24 گیندوں پر اتنے ہی رنز بناکر وکٹ پر موجود تھے۔

پھر صائم ایوب نے کُھل کر کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اگلے 5 اوورز میں 43 رنز بنے اور صائم 28 گیندوں پر 45 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے مگر بابر اس وقت بھی 34 گیندوں پر 43 رنز ہی اکتفا کیے ہوئے تھے۔ اور بالآخر انہوں نے اپنی نصف سنچری کامیابی سے مکمل تو کی مگر وہ قومی ٹیم کے لیے کسی بوجھ سے کم نہ تھی کیونکہ 57 رنز بنانے کے لیے انہوں نے 43 گیندوں کا سہارا لیا۔

یہ اننگ کسی کھلاڑی کے ذاتی ریکارڈ کے لیے اچھی ہوسکتی ہے، اس سے کیریئر میں نصف سنچریوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے مگر موجودہ دور کی کرکٹ میں یہ رفتار کسی بھی ٹٰیم کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔

یہ بھی کیسا مذاق ہے کہ آپ کپتان بھی ہیں، سینیئر بھی ہیں مگر تیز اننگ کھیلنے کا سارا دباؤ نوجوان صائم ایوب پر ہے اور اس نے اپنی نصف سنچری مکمل کرنے کی فکر بھی نہیں کی اور چھکا مارنے کی کوشش میں آؤٹ ہوگئے۔ پھر فطری طور پر اوپننگ بیٹنگ کرنے کے ماہر فخر زمان کو بھی چوتھے نمبر پر صرف اس لیے کھیلنے پر مجبور کردیا گیا کہ اوپننگ کا حق تو بابر اور رضوان کو ہی ہے پھر چاہے اس اوپنننگ جوڑی کی موجودگی میں ٹیم کم کم ہی 200 رنز کے قریب پہنچی۔

اگر 2024 کا ورلڈ کپ جیتنے کی خواہش ہے تو پھر قبضہ مافیا سے جان چھڑانی ہوگی، ابتدائی 6 اوورز کو اہمیت دیتے ہوئے فخر زمان اور صائم ایوب کو مکمل آزادی کے ساتھ اوپننگ کرنے کی اجازت دی جائے، جب تک ہم ان 6 اوورز میں 60 یا 70 رنز نہیں کرتے تب تک 200 رنز تک پہنچنا بھول جائیے اور ہم نے آج بھی دیکھ لیا کہ اب 200 رنز سے کم رنز کا دفاع مشکل نہیں بلکہ بہت زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ یہ تو مہربانی ہوئی افتخار احمد اور شاہین شاہ آفریدی کی جنہوں نے آخری 2 اوورز میں برق رفتار 33 رنز بناکر ٹیم کو 183 رنز تک پہنچا دیا۔

پھر بولنگ میں بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک خراب فارم کے باوجود شاداب کو مواقع دیتے رہیں گے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شاداب ٹی20 کرکٹ کے انتہائی شاندار کھلاڑی ہیں مگر جب کوئی کھلاڑی فارم میں ہی نہ ہو تو پھر بہتر ہے کہ اسے کچھ وقت کے لیے آرام دیا جائے۔ ہمارے پاس ابرار احمد کی صورت میں زبردست متبادل کھلاڑی موجود ہے، دیکھتے ہیں کہ اپنی ذات سے نکل کر ہم کب ٹیم کا سوچتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp