12 مئی جب ہم موت کے منہ سے نکلے

اتوار 12 مئی 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خون ریزی اور موت کی ارزانی کے عذاب سے کراچی ہمیشہ دوچار رہا لیکن اس روز اس شہر نے یہ تجربہ با انداز دگر کیا۔ یہ ذکر 12 مئی 2007 کا ہے جب اس شہر کا ارادہ یہ تھا کہ وہ بھی عدلیہ بحالی تحریک کا حصہ بن کر قومی دھارے میں شامل ہو جائے گا لیکن اس وقت کے حکمرانوں کے ارادے مختلف تھے۔

اس تحریک میں ٹیلی ویژن صحافت نے کچھ نئے طریقے بھی سیکھے تھے، ہم لوگ اور خاص طور پر آج ٹی وی والے جو یہ طریقے ایجاد کرنے اور انہیں دم بہ دم آگے بڑھانے والوں میں شامل تھے، ان طریقوں کو بال ٹو بال کمنٹری کا طریقہ کہا کرتے تھے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری طیارے پر سوار ہوئے اور کم و بیش 2 گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس وقت کیا ہورہا ہے۔ اسی دوران بے چینی کی کیفیت میں، میں نے برادر محترم مشتاق منہاس کو فون کیا۔ وہ ابھی تک صحافت سے وابستہ تھے اور آج ٹی وی کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔ وہ بھی چیف جسٹس کے ساتھ طیارے پر سوار تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ طیارہ یقیناً اتر چکا ہے لیکن انتظامیہ کے ارادے نیک نہیں لگتے۔ بس ہم نے یہیں سے مشتاق منہاس کو ٹیلی ویژن پر براہِ راست لینا شروع کردیا۔ یہ ایک طرح سے پہلی بار تھا کہ کسی نے طیارے سے رپورٹنگ کی ہو۔

شہر کو اس روز جگہ جگہ کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ یہاں وہاں سے جلوس نکل رہے تھے۔ صبح سے ہی اطلاعات ملنے لگیں کہ ان پر فائرنگ ہورہی ہے۔ لوگ زخمی ہورہے ہیں اور جان سے جارہے ہیں۔ فائرنگ کے بہت سے واقعات کی زد میں بہت سے صحافی بھی آئے، ان میں ایک سیلانی کے قلمی نام سے ’دیکھتا چلا گیا‘ والے احسان کوہاٹی بھی تھے۔ آج ٹی وی کے اسلم خان اس روز ایئرپورٹ پر تھے۔ وہاں سے 3 سے 4 کلو میٹر پیدل چلتے ہوئے وہ کمیرہ مین عارف علی کے ساتھ شاہراہِ فیصل پر پہنچے تو مسلح گروہ کے گھیرے میں آگئے۔ ایک شخص نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کہاکہ اگر ہماری فوٹیج بنائی تو پھر تمھاری خیر نہیں۔ اسلم خان نے بتایا کہ ایئرپورٹ کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف فلک ناز اپارٹمنٹ کی چھت پر مسلح افراد موجود تھے جو چیف جسٹس کے استقبال کے لیے آنے والے جلوسوں پر فائرنگ کررہے تھے۔ اس قسم کی فائرنگ سے اس روز 48 افراد جان سے گئے۔ خیر، اندھا دھند فائرنگ کی اطلاعات صبح سے ہی آنا شروع ہوگئی تھیں اور عادت کے مطابق یہ رپورٹ بھی کیا جانے لگا کہ اس کے ذمے دار نا معلوم افراد ہیں لیکن جلد ہی یہ پرانی روایت دم توڑ گئی۔

سید طلعت حسین آج ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز تھے۔ عدلیہ بحالی تحریک کی کوریج کے سلسلے میں وہ بہت پر جوش تھے، اسی لیے دو روز پہلے سے ہی شہر میں موجود تھے۔ ایک بڑے صحافی کی حیثیت سے انہیں بہت سے غیر معمولی واقعات اور حادثات کو آنکھوں سے دیکھنے اور کور کرنے کے مواقع ملے ہوں گے۔ وہ بد امنی، خون ریزی اور دہشتگردی کی نوعیت سے بھی یقیناً واقف ہوں گے لیکن اتنی ننگی جارحیت کو انہوں نے یوں پہلی بار دیکھا ہوگا۔ کراچی کے صحافی اس قسم کی صورتحال سے برسوں پہلے سے دوچار رہے تھے۔ نیوز روم کو باہر سے کنٹرول کیا جانے لگا تھا۔ صحافیوں کے گھروں پر حملے کرنا یہاں تک کہ انہیں قتل تک کردیا جاتا تھا۔ مدیر اعلیٰ تکبیر محمد صلاح الدین کو دسمبر 1994 میں کھلے بازار میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس آشوب میں تکبیر یا کسی ایک آدھ اخبار یا رسالے کے علاوہ شاید ہی کوئی اور حملہ آوروں کی نشاندہی ان کی شناخت کے ساتھ کرتا ہو۔ طلعت حسین نے مجھ سے کہاکہ یار، حملہ آور اپنی جماعت کے جھنڈے اٹھائے، اسلحہ لہراتے ہمارے دفتر کے سامنے یعنی گرومند چوک پر کھڑے ہیں، ہم انہیں کیوں نہیں دکھاتے؟ انہیں بتایا گیا کہ ایسے مناظر صحافی اور شہر والے ایک زمانے سے دیکھتے آرہے ہیں لیکن کوئی ان کا نام لیتا ہے اور نہ انہیں دکھاتا ہے۔ یہ ان ہی کا فیصلہ اور قائدانہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے کھڑے کھڑے فیصلہ کیاکہ ہم انہیں دکھائیں گے۔ یوں آج ٹی وی کی نئی بلڈنگ سے متصل دفتر ہی کی ایک پرانی بلڈنگ کی چھت پر کیمرہ نصب کرکے انہیں دکھایا جانے لگا۔ یوں پہلی بار دنیا نے دیکھا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہے اور وہ سیدھے نشانے لے لے کر گولیاں چلا رہے ہیں، ان ہی کے ہاتھوں میں ایم کیو ایم کے جھنڈے بھی ہیں۔ کراچی میں مرکزی دھارے کی صحافت میں یہ پہلی جرات مندانہ سرگرمی تھی۔ اس واقعے کے بعد کیا ہوا۔ یہ کہانی جعفر رضوی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے آج ٹی وی اور بزنس ریکارڈر کے چیف ایگزیکٹو وامق زبیری سے رابطے کرکے کوریج بند کرنے کے لیے کئی بار کہا۔ وامق زبیری صاحب انہیں کیا جواب دیتے رہے، پوری تفصیل کے ساتھ اس کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آ سکیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ کوریج کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسی مسلح ہجوم نے جسے ٹیلی ویژن کا کیمرہ دنیا کے سامنے لا چکا تھا، اپنی بندوقوں کا رخ چینل کی طرف کرلیا۔

میں اس وقت نیوز روم میں موجود تھا اور اس شعبے کی ذمہ داری اس وقت میرے ہی کاندھوں پر تھی، جب گولی شیشے کی دیوار کو پھاڑتی ہوئی نیوز روم تک پہنچی، نیوز روم میں اس وقت 50 سے زیادہ لوگ ہوئے ہوں گے۔ وہ لوگ جو اس وقت کسی اوٹ کے سامنے نہیں بلکہ فائرنگ کے بالکل سامنے تھے، یعنی ان کے اور حملہ آوروں کے درمیان صرف شیشے کی دیوار تھی، فرش پر لیٹ کر جان بچانے پر مجبور ہوگئے۔ سید طلعت حسین نے برادر عزیز جعفر رضوی سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ نیوز روم کے اندر کچھ لوگ ایسے موجود تھے جو حملہ آوروں کی رہنمائی کررہے تھے کہ ان (حملہ آوروں) کی کوریج کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا ممکن ہے، 5 سے 6 درجن لوگوں کے درمیان کون کیا کررہا ہوگا، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیوز روم میں بیٹھے ہوئے لوگ موت کے منہ میں تھے اور وہ اسی کیفیت میں بیٹھ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دے رہے تھے۔ عین اس وقت جب نیوز روم پر ایل ایم جی اور کلاشنکوف سے فائرنگ ہورہی تھی، ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر کے قریب جنرل پرویز مشرف کے حق میں اور عدلیہ بحالی تحریک کے خلاف ایم کیو ایم کا جلسہ جاری تھا جس سے الطاف حسین خطاب کررہے تھے۔ اس دوران میں چوںکہ دفتر پر فائرنگ ہوچکی تھی، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ان کا خطاب دکھایا یا سنوایا نہیں جائے گا۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا۔ اسی دوران نیوز روم میں ایک فون آیا جو اتفاق سے میں نے سنا۔ بتایا گیا کہ وہ صاحب ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے بات کررہے ہیں۔ انہوں سوال کیا کہ آپ لوگ قائد تحریک یعنی الطاف حسین کا خطاب اپنے چینل پر کیوں نہیں دکھا رہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے دفتر کو اس وقت مسلح ہجوم نے گھیرا ہوا ہے۔ دفتر پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارا تکنیکی نظام درہم برہم ہوگیا ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ معمول کے مطابق نشریات جاری رکھی جا سکیں۔ انہیں بتایا گیا کہ اب جو کچھ بھی ہورہا ہے، خود کار نظام کے تحت ہورہا ہے۔ اس پر وہ صاحب طیش میں آ گئے اور انہوں نے ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ہم تمہیں جانتے ہیں۔ تم پہلے سے ہی ہمارے خلاف ہو، اس دفتر سے کبھی تو نکلو گے پھر ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔

کچھ دیر کے بعد ہماری اسکرین پر الطاف حسین کی تقریر کا ایک حصہ سنوانا شروع کردیا گیا۔ اس کا سبب ایم کیو ایم کی طرف سے چینل کے مالکان کے ساتھ رابطے ہی رہے ہوں گے۔ چینل کا عملہ الطاف حسین کی تقریر کے آغاز کا ایک حصہ ریکارڈ کر کے کسی نہ کسی طرح لے آیا تھا۔ ابتدا میں یہی حصہ سنوایا گیا پھر اسے ریپیٹ پر لگایا گیا بعد میں ٹیلیفون پر ان کی تقریر براہِ راست بھی سنوائی گئی۔ چینل کا یہ فیصلہ ایک ایسی کیفیت میں تھا جب درجنوں افراد کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ الطاف حسین کی تقریر سنوانے یا دکھانے کا جس وقت فیصلہ کیا گیا، اس وقت چینل کی سینیئر نیوز اینکر نادیہ مرزا لائیو نشریات میں تھیں۔

آج ٹی وی کے اطراف فائرنگ کا سلسلہ تھما تو توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے والے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے۔ اس ہجوم نے چینل کی عمارت پر پتھراؤ کیا اور پارکنگ میں گھس پر ہماری گاڑیاں تباہ و برباد کردیں۔ اس وقت بھی نادیہ مرزا اسٹوڈیو میں تھیں اور جو کچھ ہورہا تھا، وہ اس کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ عین اس وقت جب انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اعلان کریں کہ اس وقت الطاف حسین کی تقریر سنائی جائے گی، مسلح ہجوم پارکنگ میں توڑ پھوڑ کررہا تھا اور اتفاق سے کیمرہ خود ان ہی کی گاڑی کو دکھا رہا تھا۔ لاکھوں روپے مالیت کی گاڑی اور وہ بھی اپنی تباہ ہوتے ہوئے دیکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس شخص کے لوگ یہ تباہی مچا رہے ہوں، ان کے لیڈر کی تقریر کا اعلان کرنا پڑے، کچھ کم ستم ظریفی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے شدید کرب کی کیفیت میں ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا اور یہ کہہ کر I can’t do this اسٹوڈیوز سے نکل آئیں۔ اس واقعے میں ان کی گاڑی کی طرح میری گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا اور گاڑی میں موجود قیمتی اشیا لوٹ لی گئی تھیں۔

چینل پر جب فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران میں سید طلعت حسین نے فیصلہ کیا کہ خواتین کارکنوں کو نیوز روم سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے، چنانچہ خواتین کارکنوں کو دفتر کی چھت پر منتقل کردیا گیا جہاں کیمرہ نصب تھا لیکن عین اس وقت جب خواتین چھت پر تھیں، گولیوں کی ایک باڑھ آئی اور کیمرے کے پرخچے اڑ گئے تب سمجھ میں آیا کہ خواتین کی چھت پر منتقلی درست نہیں۔ اس کے بعد انہیں عمارت میں ایک اور محفوظ جگہ منتقل کردیا گیا۔

آج ٹی وی پر براہِ راست فائرنگ کے باوجود زیادہ افرا تفری نہیں تھی۔ کارکن پرجوش تھے اور بدترین آزمائش کے اس مرحلے میں کسی بھی پرعزم سپاہی کی طرح اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری ادا کررہے تھے۔ اس دوران میں طلعت حسین کسی عسکری کمانڈر کی طرح متحرک دکھائی دیتے تھے۔ کبھی بھاگتے ہوئے ایک طرف کو جاتے، کبھی دوسری طرف کو نکل جاتے۔ کبھی نیوز روم کے داخلی کاریڈور میں بھاگتے ہوئے آتے اور وہاں پڑے ایک میز کے پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے۔ ان کا جوش و خروش اور بھاگ دوڑ دیدنی تھی۔ اس نقل و حرکت کا بیشتر تعلق ہنگامی نوعیت کی صورتحال کے دباؤ اور ایک یادگار واقعہ کو کامیابی کے ساتھ کور کرنے کی سرخوشی اور جوش و خروش سے زیادہ تھا جس کا نظارہ ایک خوشگوار کیفیت میں کیا گیا۔

مسلح حملہ آوروں کو لائیو دکھانے کے سلسلے میں ان کا فیصلہ انتہائی جرات مندانہ اور تاریخی تھا۔ اس فیصلے نے کراچی کی صحافت میں 2 سے 3 دہائیوں سے چلے آتے جمود کو ٹوڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسا کبھی ممکن نہ ہوتا اگر چینل کی انتظامیہ نے ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے طلعت حسین کو جو اختیارات دے رکھے تھے، ان پر وہ قدغن لگا دیتی۔ اس لیے طلعت حسین کے جرات مندانہ فیصلے کے ساتھ ساتھ چینل انتظامیہ یعنی زبیری صاحبان کے حوصلے کو بھی ضرور داد دی جانی چاہیے۔

آج ٹی وی کی طرف سے جرات مندانہ طرز عمل اختیار کر لینے کے بعد دیگر چینلز نے ماضی کی مصلحت کو ترک کر کے جرات کا مظاہرہ شروع کردیا۔ اس موقع پر دہشتگردی کے انسانیت سوز طرز عمل کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے بعض جرات مندانہ اقدامات بھی کیے گئے۔ ممکن ہے کہ یہ اقدامات صحافتی اقدار کے مطابق نہ رہے ہوں لیکن وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عین اس وقت جب شہر میں ہر طرف فائرنگ ہورہی تھی اور بے گناہ لوگوں کے مرنے کی اطلاعات آرہی تھیں، ایک کیمرہ مین (نام ذہن میں نہیں) جان پر کھیل کر ایک غیر معمولی فوٹیج لے کر آیا۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہوگیا اور سڑک پر پڑا تڑپ رہا ہے اس کے باوجود قریب پڑے اس کے موٹر سائیکل کو آگ لگا دی گئی ہے۔ اس فوٹیج کو چلانے کے جرات مندانہ فیصلے نے اس روز شہر میں بے رحمی سے کی جانے والی خون ریزی کی اصل نوعیت کو بے نقاب کردیا۔

اس دن ٹیلی ویژن چینلوں کی باہمی پیشہ ورانہ چشمک تقریباً ختم ہوگئی اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر معمولی تعاون کیا۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو فوٹیج فراہم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

مجھے یاد ہے کہ اس روز ہم صبح 7 سے 8 بجے کے درمیان دفتر میں پہنچے تھے اور رات دو تین بجے تک وہیں رہے۔ اس روز دفتر میں پانی اور کھانے پینے کی اشیا ختم ہو گئیں۔ رات گئے بمشکل کسی جگہ سے بریانی کی چند دیگیں میسر آ سکیں، یوں دن بھر مسلسل مصروف رہنے والے کارکنوں کو پیٹ بھرنے کے لیے کچھ مل سکا۔

سارا دن لائیو نشریات اور فائرنگ کی وجہ سے جم کر بیٹھ نہ پانے اور بھاگ دوڑ کی تھکن کی وجہ سے نیوز روم کے عملے کے لیے معمول کی سرگرمی یعنی بلیٹن کی تیاری مشکل تھی۔ رات کسی وقت جب نشریات کو معمول پر لانے کے لیے بلیٹن نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو میں نے لاہور میں برادران صوفی نعمان یاور، احمد ولید اور کراچی میں اسلم ڈوگر اور فرخ تنویر سے تعاون کے لیے کہا۔ یوں ہم طے شدہ وقت میں بلیٹن نشر کرنے کے قابل ہو سکے۔ رات کوئی 3 بجے ہم اپنے گھروں کو جانے کے لیے دفتر سے نکلے تو رات کی تاریکی میں کھلے آسمان تلے کھڑے ہو کر پہلے لمبے لمبے سانس لیے۔ اس لمحے یوں محسوس ہوا کہ جیسے آگ اور خون کا دریا عبور کرکے امن کے جزیرے پر اس احتیاط کے ساتھ قدم رکھا ہو کہ جیسے ہی خطرہ ہوگا واپس پلٹ جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp