27 اپریل 2020 کو میری والدہ کا انتقال ہوا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اس بات کو قریباً 4 برس ہوگئے ہیں۔ درست بات یہ ہوگی کہ اس سانحے کو گزرے ہزاروں راتیں گزر چکی ہیں اور سینکڑوں دن بیت چکے ہیں۔ یہ بات بھی کہنا بے محل ہے کہ ان کے انتقال کے بعد میں نے ہر روز ان کے لیے دعا کی بلکہ یوں کہیے کہ ان کے انتقال کے بعد آج بھی یوں لگتا ہے کہ وہ ہر روز میرے لیے دعا گو رہتی ہوں گی۔ ایک پرانی تحریر جس کی کسک دل میں تازہ ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر وی نیوز کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
میری والدہ پروفیسر صدیقہ انور کا انتقال 3 رمضان المبارک کو ہوا۔ عمر 85 برس تھی۔ انہوں نے تینوں روزے رکھے۔ ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب نے ان سے ضد کی کہ آپ اس عمر میں روزہ نہ رکھیں۔ شرع بھی اجازت دیتی ہے۔ ضد سے تنگ آکر بالآخر انہوں نے تیسرے روزے کی افطاری کے بعد وعدہ کیاکہ اب وہ اس رمضان میں مزید کوئی روزہ نہیں رکھیں گی۔ رات قریباً 10 بجے ان کی طبیعت خراب ہوئی اور 11 بجے تک وہ اس دنیا سے جا چکی تھیں۔ وہ آخری لمحے تک اپنی بات پر قائم رہیں۔ نہ انہوں نے اس رمضان کا کوئی روزہ قضا کیا اور نہ کسی سے کیا کوئی وعدہ توڑا۔
ان کا آخری دن ان کی ساری زندگی کا خلاصہ ہے۔ صبح انہوں نے روزے کی حالت میں محلے کی خواتین کو قران پاک کا درس دیا۔ پھر ابو کے ساتھ مل کر ان تمام لوگوں کی فہرست مکمل کروائی کہ جن کو اس سال زکوٰۃ دینی تھی۔ ہر ایک کے نام کے ساتھ رقم لکھوائی۔ دوپہر کو اپنے کانپتے ہاتھوں سے افطار کے لیے اپنی پسندیدہ ڈش پلاؤ بنایا۔ روزہ افطار کیا اور چپ چاپ اپنے آخری سفر پر چل دیں۔ ان کی ساری زندگی اسی طرح گزری۔ یہی مصروفیات تمام عمر ان کا معمول رہیں۔
وہ فارسی اور اردو ادب کی پروفیسر تھیں۔ تدریس سے ان کو عشق تھا۔ ریٹائر ہوئیں تو کینسر کے موذی مرض نے آن لیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ امی کومے میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ جانے کس معجزے کے سبب وہ اس بیماری سے صحت یاب ہوگئیں۔ اس بیماری کے بعد وہ 23 برس حیات رہیں۔ ان 23 برسوں میں ان کا اوڑھنا بچھونا قران پاک کی تعلیم ہوگیا۔ محلے کی چند خواتین سے درس قران کا آغاز کیا اور پھر شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوگئی۔ ہر درس کے بعد اپنی شاگردوں میں ٹافیاں تقسیم کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹافیاں لانے کی ذمہ داری ہم سب کی تھی اور اس میں کوتاہی ناقابل برداشت تھی۔
قران کی تعلیم کی بعد ان کی سب سے بڑی مصروفیت میرے والد انور مسعود تھے۔ ان کی شادی کو 55 برس گزر گئے تھے۔ مگر ان کی محبت اب تک مثالی تھی۔ میرے والد نے زندگی میں جو بھی شعر لکھا ہے سب سے پہلے میری والدہ کو سنایا۔ میری والدہ خود عالم فاضل تھیں، وہ نئے لکھے اشعار میں تصحیح بھی کرتیں اور مشورہ بھی دیتیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں کچھ اس طرح مشغول تھے کہ یہ بھی ہوا کہ ابو نے اسلام آباد سے لاہور جانا ہے تو ان کے گھر سے نکلتے ہی ہر 15 منٹ کے بعد دونوں ایک دوسرے کو فون کرکے اپنی اپنی خیریت کی اطلاع دیتے، ایک دوسرے کا حال پوچھتے۔ حد تو یہ تھی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو گھر کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کی اطلاع بھی بڑی باقاعدگی سے دیتے۔ میرے والد بڑے کامل یقین سے یہ بات کہتے ہیں کہ ’ان کی تمام تر کامیابیوں کا سہرا میری والدہ کی دعاؤں کو جاتا ہے‘۔ میرے والد پر ان 55 برس کی رفاقت کے ختم ہونے کا بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ وہ اس غم کا اظہار تو نہیں کر رہے لیکن اب جب وہ سجدے میں جاتے ہیں تو ان پر دیر تک گریہ طاری رہتا ہے۔ مغفرفت کی دعا کے لیے اٹھے ہاتھ بہت جلد آنسوؤں سے بھر جاتے ہیں۔
میری والدہ کا محبوب جملہ ’شکر ہے، شکر ہے‘ تھا۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرنے کی وجہ تلاش کر لیتیں۔ حالات چاہے کتنے بھی خراب ہوں۔ مشکلات چاہے مالی ہوں یا جسمانی، فکر کسی بچے کی ہو یا پھر کسی رشتہ دار کی پریشانی ہو وہ شکوہ نہیں کرتی تھیں۔ شکر ادا کرتی تھیں۔ جس بھرپور طریقے سے زندگی انہوں نے گزاری، جس محبت سے قران کے علم کو تقسیم کیا، جس محنت سے اولاد کی تربیت کی۔ اس کے بعد اب جب وہ اس جہان سے بغیر کسی کو تکلیف دیے ہوئے، بغیر کسی کو امتحان میں ڈالے چلی گئیں تو مجھے واثق یقین ہے کہ وہ اس وقت بھی جنت کے کسی باغ میں بیٹھی بڑی مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ساری زندگی کے بارے میں کہہ رہی ہوں گی ’شکر ہے شکر ہے‘۔ شکر کی نعمت انہیں ہی میسر تھی۔ ہم ایسے بدنصیب ہیں کہ ان کے جانے کے بعد نہ ہمیں صبر آرہا ہے نہ ہی ہم سے ’شکر ہے شکر ہے‘ کا ورد کیا جارہا ہے۔
میری والدہ کی عمر کا ایک طویل عرصہ بہت عسرت میں بسر ہوا۔ اب آخری عمر میں کچھ مالی آسودگی نصیب ہوئی تو ان کی فکریں اور بڑھ گئیں۔ وہ بہت مالدار خاتون نہیں تھیں مگر اس کے باوجود وہ سب کو بار بار تلقین کرتیں کہ میرا جو بھی تھوڑا بہت مال اسباب ہے اسے شریعت کے عین مطابق تقسیم کیا جائے۔ وہ ہمیں ڈراتی بھی تھیں کہ جن کا اسباب شریعت کی رو کے مطابق تقسیم نہیں کیا جاتا ان کی روحیں اذیت میں رہتی ہیں اور تمام عمر بھٹکتی رہتی ہیں۔
ہم 5 بہن بھائی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے تئیں اس زعم میں مبتلا رہتا کہ وہ امی کا سب سے لاڈلا ہے۔ وہ سب سے ایک سا پیار کرتیں۔ سب کی کمزوریوں اور کجیوں پر پردہ ڈالتیں۔ سب میں خوبیاں تلاش کرتیں۔ بچوں کے معاملے میں ان کی ایک عجیب عادت تھی۔ وہ بچوں کی کامیابیوں کی بہت زیادہ خوشیاں نہیں مناتی تھیں۔ وہ ان کامرانیوں کی تشہیر بھی نہیں کرتی تھیں۔ عجب بات یہ تھی کہ جب کوئی بچہ کوئی کامیابی حاصل کرتا، نئی گاڑی لیتا، نوکری میں پروموشن ملتی، کسی ایوارڈ کا مستحق قرار پاتا، یا کسی بچے کو کاروبار میں منافع ہوتا تو وہ بچہ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کا مستحق ہوتا۔ لیکن اگر کوئی بچہ زندگی کے کسی مرحلے میں ناکام ہوتا، کسی امتحان میں فیل ہو جاتا، کسی کو نقصان ہوتا تو وہ ان کی محبت کا پہلے سے زیادہ مستحق بنتا۔ اس کے ساتھ ان کا لاڈ بڑھ جاتا۔ اس کے لیے دعاؤں میں اضافہ ہو جاتا۔ وہ ہماری کامیابیوں کی ہی نہیں بلکہ ناکامیوں کی بھی ساتھی تھیں۔
مہنگا لباس، زیورات، بڑی گاڑی یا کسی مہنگے ہوٹل میں کھانے سے ان کو وحشت ہوتی تھی۔ وہ سادگی سے زندگی بسر کرنے کی قائل تھیں۔ یہی سادگی ان کی زندگی کا شعار رہی اور یہی سادگی انہوں نے سفر آخرت کے وقت اختیار کی۔
اب مرحلہ ایسا جاں گسل ہے کہ کسی کو بھی ان کے جانے کا یقین نہیں آرہا۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اب ان کی صحت کے لیے دعا کرنی ہے یا ان کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھانے ہیں۔ ان کے لیے دوائی لانی ہے یا پھر ان کی قبر پر پھول بکھیرنے ہیں۔ ان کی اچانک وفات پر آنسو بہانے ہیں یا پھر ان کی زندگی پر رشک کرنا ہے۔
ہم 5 بہن بھائیوں کی عمریں 45 سے 55 برس کے درمیان ہیں۔ یقین مانیے اس رمضان کے تیسرے روزے سے پہلے تک ہم پانچوں بچے تھے، کم عمر تھے، نا سمجھ تھے۔ تیسرے روزے کے بعد سے ہم پانچوں اچانک بڑے ہوگئے ہیں۔ اچانک بے بس ہوگئے ہیں، اچانک بے چارے ہوگئے ہیں، اچانک بے سہارا ہوگئے ہیں۔