عجیب سرکس سجا ہے، نواز شریف اقتدار میں بھی ہیں اور اقتدار سے باہر بھی، اپنی مرضی کا وزیر خزانہ نہیں لگا سکتے لیکن نائب وزیراعظم کسی سے پوچھے بغیر لگا دیتے ہیں۔
ان کے بھائی اور ملک کے وزیراعظم شہباز شریف جتنا اسٹیبلشمنٹ کے قریب آتے جارہے ہیں، نواز شریف اتنے ہی فاصلے پر جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مقبولیت کا دعویٰ بھی ہے لیکن مریم نواز اور اسحاق ڈار کے علاوہ رابطے کی کوئی دوسری شہادت بھی دستیاب نہیں۔
آصف علی زرداری کو سیاسی داؤ پیچ کے حوالے سے ایک دانا آدمی سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایوان صدر اور صوبوں کے گورنر ہاؤسز پر قبضہ ہی ان کی سیاسی دانائی کا نقطہ عروج ٹھہرا۔
زندگی کی 70 سے زیادہ بہاریں دیکھنے والے آصف زرداری کی صحت بھی اب زیادہ قابل رشک نہیں لیکن اٹھارویں ترمیم ابھی تک کارکردگی کا نقطہ عروج ہے۔ جس پر ماہ و سال کی گرد پڑنے سے اس کی جاذبیت اور دل آویزی ماند پڑگئی ہے۔
اس بات کی فکر ہی نہیں کہ برق رفتاری کے ساتھ تبدیل ہوتے زمانے میں بھٹو کی لاش کب تک سیاسی میدان میں سوگواروں کے جذبات گرماتی رہے گی اور ووٹ پڑتے رہیں گے۔
بلاول کی سیاسی اٹھان یقیناً بہت بہتر ہے لیکن ’بابا‘ کے ’بیریئرز‘ سے آگے بڑھ کر سیاسی بقا کی خاطر بدلتی ہوئی رتوں سے شناسائی بھی ضروری نہیں کیا؟
یادش بخیر عمران خان کی سیاست اور مقبولیت ایک دوسرے سے یوں گتھم گتھا ہیں کہ تماشائیوں سے ریفری تک بھی محفوظ نہیں۔
عمران خان کی شخصیت کی دلربائی کی داد دیجیے کہ نا صرف 200 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا اور ہر مشکل میں مددگار ملتان کا قریشی خاندان داغی سے باغی کا سفر ایک جست میں طے کرگیا۔
پرویز مشرف کو 10 بار وردی میں منتخب کرنے کا یادگار بیانیہ تراشنے والا پرویز الٰہی ضمیر کا قیدی جبکہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا پوتا بھی اس جمہوری جدوجہد کا روح رواں ٹھہرا جس کا رخ درحقیقت پنڈی کی جانب ہی ہے۔
طرفہ تماشا دیکھیں کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ والے 9 مئی جس قرینے سے مناتے رہے اس کی متضاد سمت میں شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی اور فیلڈ مارشل کا پوتا سروں پر خاک ڈالتے اور دہائیاں دیتے رہے۔
پتا نہیں کہ عمران خان جیل کس مردانگی سے کاٹ رہے ہیں، لیکن اس کا پتا تو ہر کسی کو ہے کہ سیاست دیوانگی کے ساتھ کررہے ہیں۔ اور دیوانگی بھی ایسی کہ جیل میں پڑے پڑے سیاستدانوں پر تبرا بھیجتے ہوئے فوج اور آئی ایس آئی سربراہوں کے آگے مذاکرات کے لیے دامن پھیلائے کھڑے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی شخصیت ’ماہی بے آب‘ اور سیاست ’شتر بے مہار‘ اس حد تک بن چکے ہیں کہ اگلے دن پشاور میں اپنے خلاف امریکی سازش کو بھی طشت از بام کردیا (وہ بھی بغیر سائفر لہرائے)۔
مجھے خوف تھا کہ پشاور کا کوئی بد لحاظ صحافی اسٹیج سے اترتے مشتعل مولانا سے کہیں یہ نہ پوچھ لے کہ حضرت امریکا کے لیے جب افغانستان قصہ پارینہ بن چکا ہے تو آپ کہاں سے یاد آنے لگے؟
بہر حال مولانا اقتدار کے بغیر یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے عمران خان الزام تراشیوں اور گالم گلوچ کے بغیر دکھائی دیتے ہیں۔
اور رہا اس سجائے گئے سرکس کے پردے کے پیچھے اصل کردار یا بالفاظ سادہ اسٹیبلشمنٹ، تو جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں!
کہ جسے یار لوگ سراسیمگی سمجھ بیٹھے ہیں وہ دراصل کسی پرانے فلمی ڈائیلاگ کی مانند خوشی کے آنسو ہیں، اور کیوں نہ ہوں۔
کیونکہ دور افتادہ اور کمیونیکیشن سے دور پسماندہ مدارس سے بے شعوری اور نا سمجھی کی جو ناتواں سی ’ندی‘ لشکر جرار کو عشروں سے گزارہ حال کمک فراہم کرتی رہی، اس ندی کو عمران خان نے ایک امڈتے اور اچھلتے ہوئے اس منہ زور دریا میں تبدیل کردیا جس نے خشک ہوتے ہوئے کھلیانوں میں سبز رنگی اور زرخیزی بھر دی۔
خان کا یہ احسان کم ہے کیا؟
8 کمروں کے جیل اور دو چار ککڑوں کو رونے والے بد بختوں کو خان کی قربانیوں کا کیا معلوم۔