حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

پیر 13 مئی 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حسرت موہانی (سید فضل الحسن) نے 76 برس 7 مہینے اور 9 دن کی عمر میں آج ہی کے دن 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔ پرستاروں سے 73 برس کی جدائی کے باوجود ان کے اشعار آج بھی زبانِ زد خاص و عام ہیں۔ اُن کی غزل ’چپکے چپکے‘ اردو غزلیات کی سدا بہار غزل ہے:

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ
حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

ڈاکٹر سید عبد اللہ نے کہا تھا کہ حسرت محبت کے خوشگوار ماحول کے بہترین، مقبول ترین اور مہذب ترین مصور اور ترجمان تھے، وہ خالص غزل کے شاعر تھے ان کے شعروں میں ہر اس شخص کے لیے اپیل ہے جو محبت کے جذبات سے متصف ہے۔

حسرت کی چند اشعار جو میرے دل کے قریب ہیں:

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی

کوششیں ہم نے کیں ہزار مگر
عشق میں ایک معتبر نہ ہوئی

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

کہنے کو تو میں بھول گیا ہوں مگر اے یار
ہے خانۂ دل میں تری تصویر ابھی تک

واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم
اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے

معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا
اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم

پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا
میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے

کہاں ہم کہاں وصلِ جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا

چھپ نہیں سکتی چھپانے سے محبت کی نظر
پڑ ہی جاتی ہے رخ یار پہ حسرت کی نظر

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

مانوس ہو چلا تھا تسلی سے حال دل
پھر تو نے یاد آ کے بدستور کر دیا

ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے
جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

شعر میرے بھی ہیں پُر درد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا

شکوۂ غم ترے حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

ہم جور پرستوں پہ گماں ترک وفا کا
یہ وہم کہیں تم کو گنہ گار نہ کر دے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

منحصر وقتِ مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی

خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی

ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا

دلوں کو فکرِ دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

چھیڑا ہے دستِ شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ
گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے

حسرتؔ جو سن رہے ہیں وہ اہل وفا کا حال
اس میں بھی کچھ فریب تری داستاں کے ہیں

خندۂ‌ اہل جہاں کی مجھے پروا کیا ہے
تم بھی ہنستے ہو مرے حال پہ رونا ہے یہی

پُرسشِ حال پہ ہے خاطرِ جاناں مائل
جرأتِ کوشش اظہار کہاں سے لاؤں

بہاریں ہم کو بھولیں یاد اتنا ہے کہ گلشن میں
گریباں چاک کرنے کا بھی اک ہنگام آیا تھا

آنکھ اس کی جو فتنہ بار اٹھی
ہر نظر الاماں پکار اٹھی

ڈاکٹر سید عبداللہ کہا کرتے تھے کہ حسرت کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے غزل کے قدیم و جدید رنگ کو باہم اسی طرح ملا دیا کہ ان کی غزل سے ہر رنگ اور ہر ذوق کا قاری متاثر ہوتا ہے۔

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

حیرت غرورِ حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام

اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

دیکھو تو چشمِ یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

نشو و نمائے سبزہ و گل سے بہار میں
شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام

شیرینئ نسیم ہے سوز و گداز میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp