دُنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی سماج میں حکمران اشرافیہ نے ناانصافیوں کے بیج بوئے، عوام کے حقوق کو تاراج کیا، عدم مساوات کا نظام قائم کر کے غریب کا نوالہ بھی چھین لیا، تو پھر ایسی عوامی تحریکیں برپا ہوئیں کہ طاقت ور ترین سلطنتوں اور حکمرانوں کے تخت بھی تاراج ہوئے۔
تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ حکومتوں کے خلاف بغاوت اور تحریکیں اس وقت ہی برپا ہوتی ہیں جب لوگ اپنی سماجی اور معاشی صورت حال سے نا خوش ہوں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں، سماج میں نا انصافیاں ہو رہی ہیں اور حکومت بدعنوان سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
تحریکیں اس وقت بھی جنم لیتی ہیں جب لوگ خود کو مظلوم محسوس کرتے ہیں اور خود کو حکومت کے غیر منصفانہ سلوک کا نشانہ بنتا ہوئے دیکھتے ہیں۔
دُنیا میں برپا ہونے والی تحریکیں کثیرالجہتی مقاصد رکھتی ہیں جن میں کچھ لوگ جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں تو کچھ جبر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو رہتے تو جمہوریت میں ہیں لیکن بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات، غیر مساویانہ رویے، عدم مساوات، رشوت، سفارش، میرٹ کی پامالی، غیر ذمہ دارانہ اور غیر عادلانہ حکمرانی کا سامنا کرتے ہیں تو پھر حکومتی روّیوں سے مایوس ہو کر اپنے حقوق کے لیے بغاوت پر اتر آتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے بھی ایسا ہی کچھ طرزِ عمل اپنایا تو یہاں کے عوام نے بھی ایک ایسی تحریک برپا کر دی جس نے گزشتہ کئی روز سے دُنیا کے انتہائی پرامن خطے کے گلی، کوچوں، پہاڑوں اور جنگلوں کو بھی میدان جنگ بنا کر رکھ دیا ہے، تمام اضلاع کے درمیان اور پاکستان کے ساتھ مواصلاتی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
اس عوامی تحریک کے پیچھے بھی وہی بنیادی حقوق، آٹے اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی جیسے عوامل کار فرما ہیں، جن کی نشاندہی اس تحریک کو لیڈ کرنے والی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ گزشتہ ایک سال سے حکمران اشرافیا کے سامنے پیش کرتی چلی آ رہی ہے۔
ایک سال گزر جانے کے باوجود عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پورے نہ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکمران طبقے نے اس کو سنجیدہ لیا ہی نہیں یا پھر ان کی لاپروا سوچ نے اس کے بطن سے جنم لینے والی اس خوفناک تحریک، جس نے پاکستان کے حکمران طبقے کی بھی آنکھیں کھول دیں، کا ادراک کیا ہی نہیں، پا پھر شاید وہ سمجھ بیٹھے کہ اس تحریک کو آسانی سے کچل دیا جائے گا۔
یقیناً تاریخ آئینہ دکھاتی ہے کہ عوام نے جب بھی کوئی تحریک برپا کی تو اس نے بڑی سے بڑی طاقت اور جابر سلطانوں کے تخت بھی روند ڈالے، یہ تحریکیں پوری تاریخ میں تبدیلی کے لیے ایک طاقتور قوت کے طور پر سامنے آئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
امریکا میں شہری حقوق کی تحریک سے لے کر جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریک تک، ان عوامی سطح کی تحریکوں نے جابر حکمرانوں اور ان کی ناانصافیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، جابرانہ نظام کو چیلنج کیا ہے اور عوامی اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔
73-71 قبل مسیح میں سلطنت روما کی چولیں ہلانے والی مشہور اسپارٹکس بغاوت سے لے کر1680 میں ہونے والی پیوبلو بغاوت تک اور پھر برطانوی نوآبادیاتی اور جابرانہ حکومت کے خلاف 1775 کے امریکی انقلاب سے لے کر 1789 کے فرانسیسی انقلاب تک اور پھر 1917 کے روسی انقلاب تک اور پھر انقلاب ایران، یہ سب ایسی ہی انقلابی عوامی تحریکیں تھیں، جو یا تو بنیادی حقوق کے لیے تھیں، یا آزادی یا پھر جابر حکمرانوں کے خلاف تھیں۔ یہ وہی تاریخی بغاوتیں اور تحریکیں تھیں جنہوں نے بڑی سے بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
ان عوامی تحریکوں میں اگر دسمبر 2010 اور 2013 کے درمیان ’عرب بہار‘ کی تحریک کا ذکر نہ کیا جائے تو بات مکمل نہیں ہوگی۔ تیونس میں انسانی حقوق اور آمرانہ قوانین کے خلاف جنم لینے والی اس عوامی تحریک کی لہر نے مشرق وسطیٰ اور مصر سمیت افریقا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس تحریک میں بھی مظاہرین جمہوری اصلاحات، بدعنوانی اور معاشی عدم مساوات کے خاتمے کا مطالبہ لے کر اٹھے جس کے اثرات فوری لیبیا، بحرین اور شام سمیت دیگر ممالک تک پھیل گئے۔ پھر کیا ہوا کہ ’عرب بہار‘ کی اس تحریک نے کئی دیرینہ آمروں کے تخت الٹا کر رکھ دیے۔
اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر نے دے رکھا ہے۔ احتجاج ہی وہ سماجی ٹول ہے جو اہم امور کی طرف توجہ مبذول کرانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس حق کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے جانے چاہییں ورنہ پرامن ماحول تشدد کی راہیں اپنا لیتا ہے۔
یہ بات حکمرانوں کو بخوبی معلوم ہونی چاہیے کہ سماجی و اقتصادی عدم مساوات، معاشی مشکلات اور بنیادی وسائل سے محرومی حکومتوں کے خلاف باغیانہ سوچ کو پروان چڑھا سکتی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس عوامی تحریک کو مثبت سمت بڑھانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے کیوںکہ مہذب معاشروں میں ان تحریکوں سے سماجی اصلاحات جنم لیتی ہیں، جابرانہ نظام چیلنج ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مساوات، عادلانہ نظام، انصاف اور سماجی ترقی اپنے راستے بناتی ہے۔
اگر مثبت سوچا جائے تو ایسی پرامن عوامی تحریکیں سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے لیے قابل عمل بصیرت فراہم کرتی ہیں اور طاقت کے استعمال کی پیچیدگیوں، مؤثر حکمرانی کی اہمیت اور سماجی انصاف کی ضرورتوں کے لیے گہرا فہم بھی عطا کرتی ہیں۔
اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اختیار یا قانونی حیثیت کو لاحق خطرات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جبر یا مخالفین کو دبانے کے لیے ظاہری یا پوشیدہ کارروائیوں میں مشغول نہ ہو۔
آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے لیے یہ بھی رائے ہے کہ اس سے قبل کہ ’پانی سر سے گزر جائے‘ وہ اس تحریک کو کچلنے کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بجائے دُنیا میں برپا ہونے والی تحریکوں کے پیچھے کار فرما عوامل کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرے اور زیادہ جامع اور منصفانہ نظام تشکیل دے کر عوامی مطالبات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرے۔