مذاکرات کی ناکامی کے بعد مظاہرین کی بڑی تعداد اس وقت پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ سے ریاستی دارالحکومت مظفر آباد کی جانب گامزن ہے۔ اب تک مختلف ادوار میں مذاکرات کی لاتعداد کوششیں ہو چکی ہیں لیکن مظاہروں کی کال دینے والی ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومت مطالبات پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں۔
10 اضلاع پر پھیلا ہوا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا خطہ پچھلے 4 دن سے عملی طور پر مکمل بند ہے اور مبصرین کے مطابق یہ 75 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے کشمیری تو مظاہرین کے مطالبات سے واقف ہیں مگر ملک کے دیگر حصوں میں آباد بیشتر لوگ اس بارے میں زیادہ تفصیل نہیں جانتے۔
10 مئی کو شٹر ڈاؤن ہڑتال کے بعد جب مظاہرین اور پولیس تصادم کی ویڈیوز پاکستانی میڈیا اسکرینوں کے ذریعے عوام تک پہنچیں تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں عوام احتجاج کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک برس سے جاری اس احتجاجی تحریک کے بنیادی مطالبات کیا ہیں، آئیے اس پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
آٹے کی قیمت میں سبسڈی کی بحالی
8 مئی 2023 کو ضلع پونچھ میں آٹے کی قلت، قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس ان دنوں پاکستان میں بھی عوام کو آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا سامنا تھا۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی ریاستی حکومت چونکہ اس پر ایک عرصے سے سبسڈی فراہم کرتی آئی ہے تو ضلع پونچھ میں مختلف مقامات پر دئیے گئے دھرنوں میں اس کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
اس وقت جاری تحریک میں شریک مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آٹے پر سبسڈی گلگت بلستان کے برابر کی جائے اور20 کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار روپے میں فراہم کیا جائے۔
بجلی کی قیمت مقامی پیداواری لاگت کے مطابق کی جائے
مئی 2023 میں آٹے کی قلت پر دھرنے کے بعد جب اگلے مہینوں میں بجلی کی قیمت اور ٹیکسز میں اضافہ ہوا تو مختلف شہروں میں عوام نے پہلے تو مظاہرے کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جب مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو بیشتر لوگوں نے بل جمع کرانے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ ایک برس میں آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں لوگوں نے اس تحریک کا حصہ بنتے ہوئے بجلی کے بل جمع نہیں کرائے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں اس وقت 27 سے 35 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مقامی ضرورت لگ بھگ 4 سو میگاواٹ ہے، اس لیے پیداواری لاگت کے مطابق بجلی کی قیمت کا تعین کیا جائے۔
حکمران طبقے کی مراعات ختم کی جائیں
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت، بیوروکریسی اور عدلیہ میں موجود افسران کی مراعات ختم کی جائیں اور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت اہلکاروں کو 13 سو سی سی تک کی گاڑیوں کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس حوالے سے گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں حکومتی نمائندوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ ریاستی وزرا کو دی گئی سہولیات پاکستان کے وفاقی وزرا سے پہلے ہی کم ہیں اس لیے ان میں مزید کمی ممکن نہیں۔ بجلی کی قیمت، آٹے پر سبسڈی اور اشرافیہ کی مراعات کے 3 بنیادی مطالبات کے ساتھ مظاہرین معیاری 4 جی انٹرنیٹ سروسز، متنازع خطے کے سبب ٹیکسز میں چھوٹ، طلبہ یونین کی بحالی، بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے ساتھ ساتھ آزاد جموں کشمیر بینک کو شیڈول بینک کے درجہ دلوانے جیسے مطالبات بھی کر رہے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اس وقت پونچھ اور میرپور ڈویژن سے نکلنے والے قافلے اس وقت دھیرکوٹ ، چمن کوٹ اور کوہالہ میں موجود ہیں۔ جب کہ راولا کوٹ اور دیگر علاقوں سے مظاہرین کے قافلوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔