آزاد کشمیر میں پرتشدد واقعات کے اصل حقائق اور حکومتی موقف بھی سامنے آگیا۔ جس کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کے بلوں اور سستے آٹے کی فراہمی جیسے مطالبات کی آڑ میں احتجاجی تحریک میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے باعث رونما ہونے والی صورتحال یقینی طور پر نہایت تشویشناک ہے اور حالات کو جلدازجلد سنبھالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بظاہربجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی سربراہی میں ریاست مخالف احتجاج جاری ہے اس حوالے سے بجلی اور آٹے جیسی ضروریات زندگی کی قیمتوں کے تقابلی جائزے کے حوالے سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو غورسے دیکھا جائے تو یہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔
مزید پڑھیں
پہلا مطالبہ سبسڈی دی جائے
پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کسی گمنام اور ان دیکھی قرار داد نے پاکستان کو پابند کیا کہ آزاد کشمیر کی عوام کو 48 اشیا پر سبسڈی دی جائے۔ حقیقت میں یہ ایک مفروضہ ہے اور جھوٹ پر مبنی مطالبہ ہے۔
گو کہ حکومت کو ریلیف دینا چاہیے اور وفاقی حکومت اور آزادکشمیر کی حکومت اپنی استطاعت سے بڑھ کر عوام کو سبسڈی اور ریلیف دے رہے ہیں۔ آٹے پر آزادکشمیر حکومت سالانہ 14 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ اسی طرح حکومت پاکستان آزاد کشمیر کو سستی بجلی دینے کے لیے تقسیم کار کمپنیوں کو سالانہ 55ارب روپے اپنے بجٹ سے دیتی ہے۔ لہٰذا سبسڈی تو پہلے سے ہی مل رہی ہے۔
دوسرا مطالبہ بجلی مفت دی جائے
دوسرا مطالبہ یہ بتایا جاتا ہے کہ منگلہ ڈیم بنتے وقت حکومت پاکستان یا آزاد کشمیر نے تحریری طور پر معاہدہ کیا تھا کہ اس خطے کو مفت بجلی ملے گی۔ سوشل میڈیا پر یہ معاہدہ باقاعدہ شیئر کیا جا رہا ہے مگر بغور دیکھا جائے تو اس میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے لہٰذا اس مطالبے کی بنیاد جھوٹ پرمبنی ہے۔
اس چارٹر آف ڈیمانڈ کے کچھ وقت بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبہ بدل دیا۔ شاید انہیں سمجھ آگئی کہ مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ چنانچہ اب پروڈکشن کاسٹ پر بجلی مہیا کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے۔ مطلب یہ کہ جس کاسٹ پر منگلہ ڈیم میں بجلی بن رہی ہے اسی قیمت پر صارفین کو مہیا کی جائے۔
مطالبہ بظاہر تو سمجھ آتا ہے، لیکن بجلی کو منگلہ سے راولاکوٹ تک پہنچانے میں ایک ٹرانسمیشن کاسٹ لگتی ہے۔ تاریں بچھائی گئی ہیں، کھمبے لگائے گئے ہیں، ٹرانسفارمرز اور گرڈ اسٹیشن نصب کیے گئے ہیں ان سب چیزوں کی مینٹیننس اور مرمت ہے، برقیات کا عملہ ہے جو تقریباً 15ہزار ملازمین پر مشتمل ہے اور ان سب کی تنخواہیں ہیں۔ تو اگر پروڈکشن کاسٹ پر آپ کو بجلی دی جائے تو 20 سے 25 ارب روپے جو برقیات کے محکمے کو ضرورت ہے وہ کہاں سے آئیں گے؟
چلیں منگلہ کے واٹر یوزایج چارجز بھی مل رہے ہیں، نیلم جہلم کے بھی ملیں گے پھر بھی یہ ناکافی ہی رہیں گے۔ جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسز ختم کرنے تک کا مطالبہ سمجھ بھی آتا ہے اور جائز بھی ہے مگر دیگر مطالبات غیر حقیقی اور بے معنی ہیں۔ پھر پروڈکشن کاسٹ ہر پراجیکٹ کی مختلف ہے۔ نیلم جہلم اور کوہالہ 9 سے 11 روپے فی یونٹ پر بجلی بنا رہے ہیں لہٰذا کہیں ایسا نا ہو کہ یہ مطالبہ عوام کو مہنگا پڑ جائے اور 2.59 پیسے فی یونٹ کی جگہ ہمیں مزید مہنگی بجلی ملنی شروع ہو جائے۔
تیسرا مطالبہ کشمیر بینک کو شیڈول بینک بنانے کا ہے
تیسرا مطالبہ آزاد کشمیر بینک کو شیڈول بینک بنانے کا ہے، اس کا بھی ایک پراسیس ہے اورکم از کم سرمائے کی ضرورت کی مد میں 10 ارب روپے آزاد کشمیر بینک کو اسٹیٹ بینک کے پاس رکھوانے ہوں گے اور اسکی مزید کئی شرائط ہیں جو ہر بینک کو شیڈول بینک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے پوری کرنی پڑتی ہیں۔
آزادکشمیر بینک ابھی وہ تمام شرائط پوری کرنے سے میلوں دور ہے اور پھر آزاد کشمیر حکومت کے لیے 10 ارب روپے مہیا کرنا ناممکن ہے۔ یاد رکھیے یہ پیسے ڈیپازٹس سے نہیں بلکہ کیپیٹل یا ایکوئٹی سے پورے کیے جانے چاہییں۔ ڈیپازٹس چاہے 50 ارب بھی ہوں انکے ذریعے شیڈیول بینک کا درجہ نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ لہٰذا یہ مطالبہ پورا کرنا حکومت آزادکشمیر یا آزادکشمیر بینک کی استطاعت سے باہر ہے۔ کوئی مالدار قوم پرست اگر 10 ارب روپے بینک کے کیپیٹل میں ڈال کر بینک کے شئیرز خرید لے تو تب یہ کام ممکن نظر آتا ہے۔
چوتھا مطالبہ ٹیلی کام اور موبائل سروس کی بہتری ہے
چوتھا مطالبہ ٹیلی کام اور موبائل سروس کی بہتری کا ہے جو جائز سمجھا جاتا ہے۔
پانچواں مطالبہ انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ختم کرنے کا ہے
پانچواں مطالبہ سب سے دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے جس میں کہا گیا کہ آزاد کشمیر میں نا انکم ٹیکس لگایا جائے، نا پراپرٹی ٹیکس اور نا جی ایس ٹی یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزاد حکومت ایک نظام چلا رہی ہے جس میں 1لاکھ 30ہزار سرکاری ملازمین ہیں جنہیں تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ غیر ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد صرف محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تنخواہوں میں جاتا ہے جبکہ 10,10 فیصد برقیات اور صحت کے ملازمین کی تنخواہوں میں جاتا ہے۔
کل بجٹ 232 ارب روپے کا اس سال پیش ہوا۔ جب ٹیکس نہیں لیا جائے گا تو حکومت کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہوگا؟ یہ 232 ارب کہاں سے آئے گا؟ ٹیکس کی کمی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے مگر ٹیکس لیا ہی نا جائے یہ چیز نا ممکن اور مضحکہ خیز ہے۔
چھٹا مطالبہ طلبا یونینز کا ہے
چھٹا مطالبہ طلبہ یونینز کی بحالی کا ہے سیاسی طلبہ یونینز تو ویسے بھی ہر کالج یونیورسٹی میں موجود ہیں اور بلا روک ٹوک کے کام کر رہی ہیں مگر پھر بھی حکومت باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
ساتواں مطالبہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز کا ہے
ساتواں مطالبہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز ملنے چاہییں اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ یہ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے 25 رکنی مذاکراتی کمیٹی کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے اور بظاہر کمیٹی کا ہر بندہ اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد من پسند نتائج چاہتا ہے، مزید برآں آزاد کشمیر کے مقامی سیاست دان اپنے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک بات اور اہم ہے کہ ریاستی پولیس کے خلاف مظاہرین کی جانب سے حالیہ پر تشدد واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اگر 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف بروقت قانونی کارروائی کی جاتی تو حالات اسکے برعکس ہوتے اور پرتشدد عناصر کو ادراک ہوتا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔
اس سب کے بعد ایک سوال اٹھتا ہے کہ آزاد کشمیر میں پرتشدد واقعات کے دوران ایک سرکاری افسر پر تشدد کرنے کے بعد اس کی شلوار نشان عبرت کے طور پر لٹکا دی گئی اور پھر ایک سب انسپکٹر کو نہایت بے رحمی سے قتل کردیا گیا، اس طرح کے پرتشدد واقعات کا جوابدہ کون ہوگا؟
اس صورتحال میں بھارت کے ملوث ہونے اور سہولت کاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کاحالیہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان سے ملحق آزاد کشمیر پر اپنے دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں زمینی صورتِ حال تیزی سے بدل رہی ہے، مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کشمیر حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں پی او کے (آزاد کشمیر) پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لینا چاہیے۔ ایسے مطالبات اب اٹھ رہے ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع کے بیان کا جائزہ لیاجائے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 75 سال سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی صورتحال سب پر عیاں ہے، آزاد کشمیر میں ہونے والے ایک واقعہ کو خواہ مخواہ اہمیت دینا بھارت کے لیے اہم بن گیا ہے۔
اس صورتحال میں مقامی افراد سب سے زیادہ پریشان اور متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک جانب مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد جو سیاحت کے شعبے سے منسلک ہے اس کا روزگار بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا کیونکہ یہ سیاحتی سیزن ہے اور وہ جلد از جلد اس مسئلے کا حل چاہتا ہے مگر مقامی شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اس مسئلے کو طول دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے حالات کو دیکھتے ہوئے ان کے حل کے لیے کوششوں کاآغاز کردیا ہے، اس حوالے سے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر ریاستی ادارے پوری تندہی کے ساتھ آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ مل کر عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اور امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے کا دپرپا حل نکل آئے گا۔