اب سے ٹھیک اٹھارہ برس پہلے لندن میں سترہ سیاسی جماعتوں کی کانفرنس ہوئی اور قومی سیاسی تاریخ میں پہلی بار چودہ اور پندرہ مئی کی درمیانی شب آٹھ صفحاتی سیاسی مفاہمتی دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو ہم میثاقِ جہموریت کے نام سے جانتے ہیں۔چونکہ دستخط کنندگان میں سرکردہ جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تھیں لہذا میڈیا میں یہ تاثر تواتر سے زور پکڑ گیا کہ دراصل میثاقِ جمہوریت دو جماعتوں کا معاہدہ ہے اور باقی پندرہ جماعتیں شامل باجہ یا نواز شریف ، بے نظیر بھٹو اور ” دیگر ” ہیں۔
چونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں نہ صرف اس وقت اقتدار سے محروم تھیں بلکہ دونوں کی قیادت بھی جلاوطن تھی لہذا ایک دوسرے کا دکھ زیادہ آسانی سے سمجھ لیا گیا اور تحریری طور پر وعدہ کیا گیا کہ انیس سو تہتر کا آئین اسی شکل میں بحال ہو گا جس شکل میں وہ دس اکتوبر انیس سو ننانوے کے دن تک نافذ تھا ( یعنی جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کی گئی آئینی ترامیم کالعدم قرار پائیں گی )۔
مجموعی وفاقی بجٹ میں شامل دفاعی اخراجات پر بھی پارلیمنٹ میں بحث ہو گی۔( یعنی دفاعی بجٹ کی موٹی موٹی تفصیلات منتخب نمائندوں کے سامنے رکھی جائیں گی۔اور ان اخراجات میں کٹوتی و اضافہ بھی ہو سکتا ہے)۔
حالانکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس چارٹر پر دستخط کے بعد دو ہزار آٹھ سے اب تک ( بیچ کے پونے چار عمرانی سال چھوڑ ) کسی نہ کسی شکل میں برسراقتدار رہی ہیں مگر چارٹر کی اس شق پر کبھی عمل نہ ہو سکا۔
چارٹر کا ایک نکتہ یہ تھا کہ آئندہ نہ تو کسی فوجی حکومت کا حصہ بنا جائے گا نہ ہی برسرِ اقتدار آنے یا کسی منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج سے حمایت طلب کی جائے گی۔
( دو ہزار آٹھ کے بعد سے ملک میں براہ راست فوجی حکومت نہیں آئی۔لہذا ان دونوں جماعتوں کی اس نکتے کے حوالے سے کوئی براہِ راست آزمائش بھی نہیں ہوئی۔البتہ چارٹر پر دستخط کے لگ بھگ ڈیڑھ برس بعد پرویز مشرف حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان این آر او ہوا جسے بعد میں اعلیٰ عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔ چارٹر پر دستخط کرنے والی دیگر جماعتوں سے پیپلز پارٹی نے این آر او کے بارے میں کوئی موثر پیشگی مشاورت نہیں کی۔
اپریل دو ہزار بائیس میں عمران خان حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد فوج کی جانب سے ” غیر جانبدارانہ ” رویے کے سبب ہی ممکن ہو پائی مگر اکثر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جو ہائیبرڈ جمہوریت اس ملک پر جولائی دو ہزار اٹھارہ سے نافذ ہے، اس کی گرفت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ حالانکہ موجودہ مخلوط منتخب حکومت میں چارٹر آف ڈیموکریسی کی دستخط کنندہ بیشتر جماعتیں شریک ہیں۔ یہ حکومت آٹھ فروری کے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ ان انتخابات پر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ کتنا گہرا ہے؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔کیونکہ چارٹر کے دستخط کنندگان اس بارے میں بوجوہ خاموش ہیں )۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کا ایک نکتہ یہ تھا کہ ایک ہی شخص کے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے پر پابندی ختم کر دی جائے گی۔چونکہ یہ شق دونوں جماعتوں کے مفاد میں تھی لہذا اس پر آسانی سے عمل ہو گیا۔
ایک نکتہ یہ تھا کہ ڈیفنس سے متعلق کیبنٹ کمیٹی کی سربراہی وزیرِ اعظم کو کرنی چاہیے۔اس سفارش پر علامتی عمل ہوا۔
جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لیے نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ اس پر عمل ہوا۔مگر اس سیٹ اپ میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کا کردار بظاہر علامتی نوعیت کا ہے۔
چارٹر میں کہا گیا کہ فوج اور عدلیہ کے تمام عہدیداروں کو ارکانِ پارلیمان کی طرح اپنی املاک اور آمدنی کے سالانہ گوشوارے جمع کرانے کا پابند کیا جائے۔
( اس شق میں یہ وضاحت نہیں تھی کہ سیاستدان تو الیکشن کمیشن کو گوشوارے یوں جمع کرواتے ہیں کیونکہ انہیں الیکشن لڑنا ہے مگر فوجی افسر اور جج اپنے گوشوارے کس ادارے کو پیش کریں؟ جہاں تک انکم ٹیکس گوشواروں کا معاملہ ہے تو ہر سرکاری تنخواہ دار اہلکار بھلے اُس کا تعلق کسی بھی آئینی یا حکومتی ادارے سے ہو ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کا ہمیشہ سے پابند ہے )۔
میثاقِ جمہوریت میں کہا گیا کہ ایک کمیشن انیس سو چھیانوے کے بعد سےجمہوری حکومتوں کو ہٹانے اور کرگل جیسے واقعات کی تحقیقات کرے اور اس سے متعلق ذمہ داروں کا تعین کرے۔
( اس تجویز پر قطعاً عمل نہیں ہو سکا۔ کرگل پر کسی منتخب حکومت نے کمیشن بنانے کی بات نہیں کی۔ چارٹر پر دستخط کے بعد ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے اسباب اور ذمہ داروں کے تعین سے متعلق جو کمیشن بنایا گیا، اس کی رپورٹ کس عام آدمی نے نہیں دیکھی۔
چارٹر پر دستخط کرنے والی دونوں بڑی جماعتوں میں سے کسی نے بھی نو مئی کے واقعات کی شفاف تحقیقا ت کے لیے ایک بااختیار اور غیر جانبدار اعلیٰ جانچ کمیشن کے قیام کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔
چارٹر کی دستخط کنندہ مسلم لیگ ن کے قائد نے دو ہزار بارہ میں دوسری دستخط کنندہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف میمو گیٹ اسکینڈل میں سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہن کے شہادت دی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق فوجی حکمران کا آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل ہوا مگر چارٹر پر دستخط کرنے والی جماعتوں سمیت سب منہ دیکھتے رہ گئے اور جنرل پرویز مشرف نے فردِ جرم عائد ہونے اور ہائیکورٹ کی جانب سے سزا سنائے جانے کے باوجود پاکستان سے باہر اپنی طبعی زندگی پوری کی ) ۔
چارٹر آف ڈیموکریسی میں تمام خفیہ اداروں اور ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت بنانے اور ان اداروں میں قائم مبینہ سیاسی شعبے ختم کرنے سے اتفاق کیا گیا۔
( پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے آئی ایس آئی کو وزارِت داخلہ کے ماتحت کرنے کے لیے جو نوٹیفکیشن جاری کروایا اسے چند گھنٹوں بعد ہی واپس لینا پڑ گیا۔ اے پی ایس پشاور کے قتلِ عام کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا بل چارٹر پر دستخط کرنے والی جماعتوں نے ہی پارلیمنٹ میں منظور کیا۔ جنرل کیانی کی مدتِ عہدہ میں توسیع پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی۔ جنرل باجوہ کو دوسری بار توسیع اگرچہ عمرانی دور میں ملی مگر اس توسیع کی حمایت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی پیش پیش رہیں۔ ڈان لیکس کے معاملے میں چارٹر پر دستخط کرنے والی مسلم لیگ کی حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے ایجنسیوں کی جانب سے کارِ عدلیہ میں مسلسل مداخلت کے خط کا سپریم کورٹ نے تو ازخود نوٹس لے لیا مگر چارٹر کی دستخط کنندہ دونوں برسرِ اقتدار بڑی جماعتوں نے اس بابت جتنی بھی گفتگو کی اس میں چارٹر کی کوئی شق کسی کو یاد نہیں آئی ) ۔
چارٹر میں کہا گیا کہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو فوج اور خفیہ اداروں میں وسائل کے زیاں کو روکنے کے بارے میں سفارشات مرتب کرے ( یہ شق بھی کسی دستخط کنندہ کو کبھی یاد نہ رہی )۔
ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے بعد فوج کو الاٹ کردہ زمینوں کے معاملات کا جائزہ لے۔( اس کے بعد سے آج تک مزید ہزاروں ایکڑ زمین مختلف جوازات کے تحت الاٹ ہو گئی ) ۔
اگر اس چارٹر کا کوئی فائدہ ہوا تو وہ یہ کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادیوں کے مابین نوے کی دہائی کی ذاتیاتی سیاست اور حملے رک گئے۔ چارٹر پر دستخط کے بعد اختلافات ضرور ہوئے مگر وہ ماضی کی طرح ذاتی دشمنی اور انتقام کی سطح تک نہیں پہنچے یعنی سیاسی رواداری میں اضافہ ہوا۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ چارٹر کی روح کے مطابق اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی یونٹوں کو مرکز کے مقابلے میں زیادہ بااختیار بنانے کے لیے اتفاقِ رائے سے ترمیم کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔اس پر بھی اتفاق ہوا کہ نگراں وزیرِ اعظم اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف میں بامعنی مشاورت ہو گی۔
وہ الگ بات کہ اس ترمیم کے نتیجے میں اختیارات کی منتقل مرکز سے صوبوں کو تو ہو گئی مگر ان اختیارات میں سے بلدیاتی اداروں کو اپنا جائز سیاسی و انتظامی حصہ آج تک نہ مل پایا۔نہ ہی صوبوں کو جو اختیارات ملے انہیں موثر طور پر استعمال کرنے کے لیے ” کیپیسٹی بلڈنگ ” مکمل ہو سکی ۔
میثاقِ جمہوریت میں ایک علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی بھی سفارش کی گئی تاکہ سپریم کورٹ دیگر اہم مقدمات پر کماحقہہ توجہ دے سکے۔ اٹھارہ برس بعد بھی اس سفارش پر عمل نہ ہو سکا۔ سپریم کورٹ کو آج بھی ہر طرح کی آئینی شکایات کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
میثاقِ جمہوریت دراصل سول و فوجی توازن قائم کرنے کی ایک کوشش تھی مگر یہ مقصد بھی عارضی اور جزوی طور پر ہی حاصل ہو سکا بلکہ آج فیصلہ سازی اور گورننس کے معاملات میں ایک پلڑا پہلے سے زیادہ جھکا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔