بلوچستان کو روایات اور ثقافتوں کی امین سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں بسنے والی اقوام اپنی تہذیب، رہن سہن اور ثقافتی موسیقی کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں
ایسا ہی ایک بلوچ ثقافتی ساز دمبورہ بھی ہے جس کے تار چھڑتے ہی من کی کوئل کوکنے لگتی ہے۔
ابتدا میں یہ ساز 3 تاروں پر مشتمل ایک سادہ اور بنیادی آلہ ہوا کرتا تھا جبکہ تجدیدی ارتقا نے اس میں مزید تاروں کا اضافہ کر دیا۔
بلوچستان کی ثقافتی محفلوں میں آج بھی دمبورے کی اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔
دور حاضر میں اب بلوچستان کا یہ ثقافتی اور منفرد ساز اپنے بجانے والوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
کوئٹہ میں بسنے والے شاہنواز بنگلزئی اپنے عہد کے آخری دمبورہ نوازوں میں شامل ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہنواز نے بتایا کہ ’ہماری 9 پشتیں دمبورہ نوازی سے منسلک ہیں جبکہ میرے دادا، والد اور میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیوژن کے لاتعداد پروگراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے ہیں‘۔
’سبزی بیچ لیں مگر دمبورہ نوازی کو ذریعہ معاش نہ بنائیں‘
شاہنواز نے کہاکہ بدقسمتی سے دم توڑتی روایات نے اس ساز کے بجانے والوں کو بھی معدوم کر دیا ہے، گو حکومت سے کوئی شکوہ نہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ صوبے میں فن کے قدردان موجود نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دمبورہ بجانے سے روحانی تسکین تو حاصل ہوتی ہے مگر پیٹ خالی رہ جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں میں فن تو منتقل کر رہے ہیں مگر انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ گلی کوچوں میں سبزی بیچ لیں مگر دمبورہ نوازی کو ذریعہ معاش نہ بنائیں۔