درفش کاویانی: ایرانی فتح کی علامت جو مسلمانوں کے ہاتھوں سرنگوں ہوا

بدھ 22 مارچ 2023
author image

ڈاکٹر عثمان علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’لوگو!اس ظلم کے خلاف جو شاہ ضحاک نے برپا کر رکھا ہے، میری مدد کرو آؤ میرے جھنڈے کے نیچے اکھٹے ہو کر اس ظلم کے خلاف اٹھو جس نے ہماری اور تمہاری نسلوں کوتباہ کر دیا ہے‘۔

یہ آواز قدیم ایران کے ایک لوہار،’کاوہ‘ کی تھی، جس کے دو بیٹے ضحاک کےہاتھوں قتل ہو گئے تھے۔ نہ جانے کتنے ہزاروں لوگ اس کے ظلم کا شکار ہو رہے تھےمگر آواز بلند کرنے کی ہمت نہ کر پاتے تھے۔یہ زمانہ قبل از تاریخ کا تھاجس میں تاریخوں کا حتمی تعین کرنا مشکل ہے،لیکن مورخین کے نزدیک یہ زمانہ تقریبا 4 سے 4 ہزار 5 سو قبل مسیح کا تھا۔

کاوہ کو اپنے بیٹوں کے قتل کی خبر ملی تو خاموش بیٹھ کر صبر کرنے کےبجائےاس نےظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ٹھانی۔ لوہار کا کام کرنے والے کاوہ نے ایک دن اپنی دھونکنی کو لکڑی پر باندھا اور اعلان کیا’یہ آزادی کا جھنڈا ہےاور جو لوگ ضحاک کے ظلم سے نجات چاہتے ہیں، وہ اس کے نیچے اکھٹا ہو جائیں‘۔

لوگ ضحاک کے ظلم سے اس قدر متنفر ہو چکے تھے کہ جوق در جوق اس جھنڈے کے نیچے اکھٹے ہو گئے۔ یہ منتشر اور بپھرا ہوا ہجوم کاوہ لوہار کی سرکردگی میں اصفہان کی طرف بڑھا اور جلد ہی اصفہان فتح کر لیا گیا۔ حاکم اصفہان عوامی ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا۔

کاوہ نے تمام سرکاری خزانہ قبضے میں کیا اور لوگوں میں تقسیم کر دیا۔اصفہان کے بعد اہواز کا رخ کیا اور اپنے اس مارچ میں وہ لوگوں کو ضحاک کے ظلم کے خلاف بڑھکاتا ہوا اہواز پہنچا۔ اہواز کے لوگوں نے اس کا شاندار خیرمقدم کیا اور حاکم اہواز بھی مارا گیا۔

کاوہ لوگوں کے نزدیک ان کا نجات دہندہ بن گیا اور کاوہ کا پرچم ظلم کے خلاف نجات اور فتح کی علامت سمجھا جانے لگا۔ کاوہ کی تحریک جہاں جہاں پہنچی، لوگوں نے اس کی شاندار پذیرائی کی۔ ضحاک کو ان حالات کی خبر طبرستان میں ملی تو اس نے ایک لشکر جرار عوامی بغاوت کی سرکوبی کے لئے بھیجا لیکن وہ کاوہ کے منتشر لشکر کے سامنے نہ ٹک سکا اور کاوہ رے تک جا پہنچا۔

یہاں کاوہ نے اہل رے کے سامنے ایک گرم جوش تقریر کی اور لوگوں کو ضحاک کے ظلم کے خلاف ترغیب دیتے ہوئے کہا”اب ہم ضحاک کے قریب ہیں۔ اگر اس نے ہمیں شکست دے دی تو ہماری نسلیں اس ظلم کی چکی میں پستی رہیں گی اور اگر ہم اسے شکست دینے میں کامیا ب ہو گئے تو امن و چین سے زندگی بسر کر سکیں گے۔ بذات خود میں بادشاہت کا خواہاں نہیں اور نہ شاہی نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ تم جس کو چاہو بادشاہت کے لئے منتخب کر لو۔ میری جدوجہد تو ضحاک کے ظلم کے خلاف ہے جو اس نے ملک میں برپا کر رکھا ہے”۔

اس دوران میں شاہ ضحاک شاہی نسل کے تمام لوگوں کو قتل کروا چکا تھا تاکہ کوئی دعوے دار سلطنت زندہ ہی نہ بچے۔ لیکن خوش قسمتی سے فریدوں نامی شاہی جمشید نسل کا شہزادہ جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔

اسی کی سرکوبی کے لئے ضحاک نے طبرستان کا رخ کیا جہاں اسے کاوہ لوہار کی عوامی بغاوت کی اطلاع ملی۔فریدوں جان بچاتا رے پہنچا جہاں کاوہ کی تحریک داخل ہو چکی تھی۔ کاوہ کو جمشیدی نسل کے شہزادے کے بارے میں علم ہوا تو بہت خوش ہوا اور تلاش کروا کے اپنا جھنڈا اس کے حوالے کر دیا۔ یہ جھنڈاکاوہ کے نام کی نسبت سے ’درفش کاویانی‘ کے نام سے شہرت پا چکا تھااور جیسا کہ بیان ہوا ، فتح کی علامت سمجھا جانےلگا تھا۔

فریدوں نے درفش کاویانی کے زیر سایہ لشکر کی قیادت سنبھالی اور اسے منظم کرنا شروع کر دیا۔جلد ہی فریدوں اور ضحاک کے مابین خوفناک معرکہ برپا ہوا اورضحاک کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ کوہ البرز میں قید کیا گیا اور فریدوں نے شاہ ایران کی حیثیت سے شہنشاہی کا تاج پہنا۔ کاوہ کو سپہ سالاری کا عہدہ بخشا گیا۔

کاوہ نے درفش کاویانی کے زیر سایہ لشکر کو حرکت دی اور تمام ظالمانہ عناصر کی بیخ کنی کرنی شروع کی اور بیس برس کے عرصے میں تمام ملک کو ظالموں سے پاک کر دیا گیا۔

کاوہ کی موت کے بعد فریدوں نے درفش کاویانی کو منگوا کر انتہائی ادب و احترام سے شاہی خزانے میں داخل کیا۔ ہر جنگ میں یہ جھنڈا شاہی خزانے سے نکالا جاتا اور ایرانی اس کے زیر سایہ میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے اور اس بات کا یقین رکھتے کہ اس کی برکت سے وہ جنگ میں فتح یاب رہیں گے۔

ہر آنے والا شہنشاہ اس پرچم کو قیمتی زروجواہر سے آراستہ کرتا۔ علامہ ابن جریر طبری کے مطابق بھی شاہان عجم اس جھنڈے سے برکت حاصل کرتےاور اہم امور میں اس جھنڈے کو سب جھنڈوں سے بلند رکھتے۔فردوسی نے شاہنامہ میں بھی اس کا شاندار تذکرہ کیا ہے۔

زمانے گزرتے گئے حتیٰ کہ عربوں میں اسلام کا ظہور ہوا اور تمام عرب اسلام کے زیر نگیں آگیا۔ خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور ایران کے خلاف قادسیہ کی مشہور جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں بھی درفش کاویانی بلند کیا گیا لیکن شائد اب وہ برکت دینے کے لائق نہیں رہا تھا۔ میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور درفش کاویانی سرنگوں کر دیا گیا۔

پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی ، تاریخ ایران قدیم میں ایک عرب شاعرکے حوالے سے درفش کاویانی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ”نوشیرواں درفش کاویانی کے نیچے سپاہیوں کی صفیں لے کر چل رہا ہے اور موتیں کھڑی دیکھ رہی ہیں”۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp