بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی نقل کرتے ہوئے اپنی مزاحیہ ویڈیوز کے لیے مشہور 29 سالہ کامیڈین شیام رنگیلا ریاست اتر پردیش کے تاریخی شہر واراناسی سابقہ بنارس سے وزیراعظم کے خلاف لوک سبھا کا الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں، جہاں انہیں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں ابھی تک ناکامی کا سامنا ہے۔
کاغذاتِ نامزدگی کا عمل 7 مئی کو شروع ہوا، لیکن شیام نے 10 مئی کو الزام لگایا کہ حلقے سے نامزدگی فارم حاصل کرنا غیر ضروری طور پر پیچیدہ تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ، کئی دیگر افراد کے ساتھ جو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔
मोदी जी शायद श्याम रंगीला से डर गई इसलिए इसका नामांकन नहीं ले रही pic.twitter.com/Me3LtjzdLo
— hayulحیول انصاری🇮🇳 (@HayulAnsari) May 14, 2024
بھارتی میڈیا کو انٹرویو کے دوران شیام رنگیلا کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش میں روتے ہوئے دیکھا ہے۔ ’لوگ صبح 8 بجے سے کلکٹریٹ میں انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں فارم نہیں دیا جا رہا ہے، حکام ہم سے معاملے کو سمجھنے کے لیے کہہ رہے ہیں، اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں فارم کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔‘
شیام نے مزید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 10 مئی کا پورا دن ضائع ہو گیا کیونکہ کسی کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی اجازت نہیں تھی اور یہ صورتحال 13 مئی کو بھی جاری رہی، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کے الیکشن لڑنے کے حق سے انکار کیا جا رہا ہے۔
شیام نے دعویٰ کیا کہ تمام عمل کو مکمل کرنے کے باوجود جیسا کہ عہدیداروں نے کہا، انہیں کلکٹریٹ کے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ ’یہ وزیر اعظم مودی کو بلا مقابلہ جیتنے کے قابل بنانا ہے، میں اپنا فیصلہ واپس نہیں لوں گا، ابھی اس کا قتل نہیں ہوا لیکن میں جمہوریت کا گلا گھونٹتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔‘
راجستھان کے سری گنگا نگر ضلع سے تعلق رکھنے والے شیام رنگیلا بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح اپنے آبائی علاقے کے بجائے ہندوستان کے ’روحانی دارالحکومت‘ واراناسی سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، آج کل وہ اسی شہر کی سڑکوں پر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تگ و دو اور انٹرنیٹ پر ہیش ٹیگ رنگیلا فور بنارس کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔
लगे रहो भाई एक दिन जीत जरूर होंगी 👍@ShyamRangeela pic.twitter.com/fCIcnr96Cp
— Anuradha Patel (@Anuradha_Patel9) May 13, 2024
’ہم نے اندور میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ دیکھا، جمہوریت میں، یہ ٹھیک نہیں ہے کہ الیکشن ہی نہ ہوں،کانگریس امیدوار کو پارٹی میں شامل کرنے کے بجائے بی جے پی جو کہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، جمہوریت کی خاطر مقابلہ کی اجازت دینی چاہیے تھی۔‘
اس واقع نے ہی شیام رنگیلا کو واراناسی سے الیکشن لڑنے کا سوچنے پر مجبور کیا۔ ’میں نے سوچا کہ ہر سیٹ پر کم از کم ایک امیدوار ایسا ہونا چاہیے جو 2-4 ووٹ لے کر بھی دستبردار نہ ہو۔‘
سیاست کو اپنے طنزومزاح کا بنیادی جزو بنانے والے شیام رنگیلا بھارت کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ’سیاست آج کامیڈی ہے، کامیڈین پر سیاست کی وجہ سے پابندی لگائی جا رہی ہے، جبکہ سیاست میں کامیڈی کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘
کیا انہوں نے الیکشن لڑنے اور حمایت حاصل کرنے کے ضمن میں مالیاتی اخراجات کے بارے میں سوچا ہے؟ ’میرے پاس کوئی فنڈز نہیں ہیں، میں جو بھی کروں گا عوام کی مدد اور تعاون سے کروں گا، ابھی تو جھولا (تھیلا) ہے بس، اٹھاکے چل دیں گے اور کیا۔‘
سیاسی کامیڈی دنیا بھر میں ایک مقبول صنف ہے مگر شیام رینگلا کے مطابق ہندوستان میں طنز و مزاح کی سمجھ کا فقدان ہے۔ ’میں یوٹیوب پر آزادانہ طور پر ویڈیوز بناتا ہوں، مجھے زیادہ شوز نہیں ملتے کیونکہ جب آپ سیاسی کامیڈی کرتے ہیں تو نہ تو کانگریس اور نہ ہی بی جے پی کی حکومتیں آپ کو بلاتی ہیں۔‘