کیا بجٹ کے بعد ’پاکستان بنے گا کشمیر‘؟

بدھ 15 مئی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشہ ہفتے جو کچھ آزاد کشمیر میں ہوا،  جو مناظر الیکٹرانک میڈیا نے چھپائے لیکن  سوشل میڈیا نے دکھائے وہ دل دہلا دینے کے لیے کافی تھے۔ کہنے کو تو لوگوں کا احتجاج مہنگائی کے خلاف تھا مگر احتجاج ایسا جس میں کئی لوگ جان سے گزر گئے۔ کئی سرکاری افسران کی عوام نے وردیاں اتار دیں، کتنے ہی افسروں کو پہاڑوں کی چٹانوں سے گھاٹیوں میں دھکیل دیا گیا۔ شاہرائیں اور رستے بند کر دئیے گئے۔ اور پھر حکومت فرار ہو گئی۔

بجلی کے بلوں سے شروع ہونے والا احتجاج پوری وادی میں پھیل گیا۔ حکومت کی نااہلی نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ پوری وادی میں کئی روز تک گھمسان کا رن رہا۔ نہ کہیں حکومت نظر آئی نہ ریاست۔ نہ قانون نہ پولیس۔ سب عوامی عتاب کا شکار ہو گئے۔

یہ درست ہے کہ اس احتجاج کو ہوا دینے والے دشمن بھی ہوں گے اور دوست بھی۔ اس آگ پر پٹرول چھڑکنے والے درون خانہ بھی ہوں گے اور بیرون خانہ بھی مگر اس آگ کی تپش سب نے محسوس کی۔  کشمیر کی حکومت نے بھی۔ اسلام آباد میں بیٹھی شہباز شریف حکومت بھی لرز گئی اور اشرافیہ کے بھی کان کھڑے ہو گئے کہ کیا وہ وقت آ گیا ہے جب راج کرے گی خلق خدا !

اگر آپ کسی خونی انقلاب کی پیش بندی کی منظر نگاری کر رہے ہوں تو یہ مناظر بہت خوش کن تھے۔ لیکن اگر آپ ایک ریاست کے انصرام اور استحکام کی بات کر رہے ہیں تو یہ مناظر بہت اذیت ناک اور تکلیف دہ تھے۔ ان مناظر سے ریاست کا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ گیا، قانون کا جو پاس تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ امن کی جو خواہش تھی وہ بھی بھسم ہو گئی۔ بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کی جو تمنا تھی وہ بھی راکھ ہو گئی۔

جب بھوکے ننگے لوگ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں پر مرنے مارنے کو تیار ہوں، جب لوگ آٹے کی بوری کو جان سے زیادہ عزیز سمجھیں، جب اشیائے صرف کی قیمت زندگی سے زیادہ ہو جائے تو ہر قسم کا بھرم ختم ہو جاتا ہے۔ قانون کا دائرہ ٹوٹ جاتا ہے اور امن کی خواہش ثانوی ہو جاتی ہے۔ بھوک سے بڑا سچ کوئی نہیں ہے اور بھوکے پیٹ کو قانون کی دلیلیں مطمئن نہیں کر سکتیں۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ لوگ اس حال تک اچانک نہیں پہنچے۔ یہ حادثہ یکدم نہیں ہوا۔

یاد کیجیے دو ہزار چودہ کا دھرنا عروج پر تھا۔ چینلز کی سکرینیں عمران خان پر جمی ہوئی تھیں۔ سکرینوں کے عقب میں جنرل ظہیر الاسلام کی پشت پناہی چل رہی تھی۔ سرود اور رقص کی محفل ہر رات جمتی تھی۔ چینل براہ راست اس کی کوریج اس طرح کرتے جیسے اس سے بڑا ورلڈ کپ کوئی اور نہیں۔ اسی دھرنے میں عمران خان نے پہلی دفعہ بجلی اور گیس کے بل جلائے۔ اس وقت اس پر بہت تالیاں بجیں، بہت نعرے لگائے گئے۔ اگر اس وقت اس حرکت سے خان کو روک لیا جاتا، اس قانوں شکنی کی سزا دی جاتی۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر کچھ تعزیر کی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اس وقت ریاست کے ساتھ اس مذاق کی تحسین کی گئی، اس نفرت انگیز حرکت کو بہادری بتایا گیا کیونکہ  عمران خان کے دھرنے سے فائدہ اٹھانے کو چند حریص اور عیار افسران موجود تھے۔ انہوں نے قوم کی آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی کہ کسی کو کچھ نظر نہیں آیا۔ آج اتنے برسوں کے بعد وقت ہمیں بتا رہا ہے کہ ہمیں اپنی کن کن غلطیوں کی سزا ملنی ہے، کن کن گناہوں کا ہمیں کفارہ ادا کرنا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قانون شکنی پر داد دینے والوں میں پہل وہ کر رہے ہیں جن کے اپنے مکان شیشے کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ اسی طرح کی بات ہے، جس طرح نوجوان نسل کو کرپشن کرپشن کا سبق پڑھایا گیا۔ ان میں سے بہت سوں نے کبھی اپنے باپ سے بھی نہیں پوچھا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا لیکن سیاست دانوں سے سوال ضرور کیا۔

شیشے کے گھروں میں بیٹھے لوگوں کو خیال کرنا چاہیے کہ جب عوام کے ہاتھ آپ لوگوں کے گریبانوں تک پہنچنے لگیں تو وہ گریبان والوں کے رتبے، عہدے اور مرتبے کا خیال نہیں رکھتے۔ عوام جب احتساب کرتے ہیں تو وہ بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اس میں قانون، ضابطے اور اصول کو کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر ایک سیل رواں ہوتا ہے جو سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ انقلاب کے آغاز کی دلیل تو دی جا سکتی ہے مگر اس کے اختتام کی میعاد نہیں ہو سکتی۔ یہ آگ کب تک جلے گی؟ کس کس کا گھر بھسم کرے گی اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اسلام آباد میں بیٹھی اشرافیہ کے لیے آزاد کشمیر میں بپا ہونے والے مناظر اس لیے لمحہ فکریہ ہیں کہ ابھی کچھ دن بعد نوزائیدہ حکومت نے پہلا بجٹ پیش کرنا ہے جس میں عوام کی امنگوں کے بجائے آئی ایم ایف کی امنگوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

لازمی ہے قیمتوں میں اضافہ ہو گا، غریب کی زندگی مزید مشکل ہو گی، ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگیں گے۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں ایک دفعہ پھر آسمان سے باتیں کریں گی تو اس دفعہ قیمتیں بڑھنے پر اسلام آباد میں بھی کشمیر جیسے مناظر نظر آئیں گے؟ کیا یہاں بھی لوگوں کی برداشت کی حد ختم ہو جائے گی؟ کیا یہاں بھی غیظ و غضب سے بھرے عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے؟ کیا یہاں بھی حکومت کو عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے ؟

المیہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت کے پاس عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی سہولت میسر نہیں۔ یہ حکومت اب آئی ایم ایف کو گروی رکھی جا چکی ہے۔ وہی ادارہ اس ملک اور اس کے عوام کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ عوام احتجاج کریں گے تو بھی کچھ نہیں ملے سوائے حکومت کی رسوائی کے، جس میں حکومت پہلے ہی خود کفیل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp