عالمی اور قومی پالیسی ساز اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ جی ڈی پی 2 فیصد، مہنگائی 24.8 فیصد سے کم ہو کر 12.5 فیصد، بجٹ خسارے کم اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں خاطرخواہ اضافہ دیکھا گیا ہے ۔اسی طرح ملکی معیشت کے دوسرے اعشاریے بھی مثبت ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، احتجاج، مظاہروں، اور حکومت اور اپوزیشن کی ہٹ دھرمی میں بہتری کا یہ سفر جاری رہ سکتا ہے؟ ریکارڈ ترسیلا ت زر آئیں گی؟ احتجاجی تحریک، مظاہروں میں کاروبار متاثر نہیں ہوں گے؟ یقینا سیاسی بے چینی کے دور میں سرمایہ کار محتاط اور کاروبار میں تعطل آتا ہے جو اڑان بھرتی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس صورتحال سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ مسئلے کے حل کی چابی کس کے ہاتھ ہے؟
پی ٹی آئی کا سب سے بڑا کریڈٹ 8 فروری اور ڈس کریڈٹ 9 مئی ہے۔ اسے کوئی فالز فلیگ کہے یا اسٹیبلشمنٹ کا کھیل، یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ کوئی قومی خدمت تھی نہ وقت کا تقاضا۔ بظاہر تو پی ٹی آئی کئی ریڈ لائنز پھلانگتی نظر آئی۔ آرمی تنصیبات پر حملے، آئی ایس آئی دفاتر اور ریڈیو پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ، جی ایچ کیو اور میانوالی ایئر بیس پر حملے کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی کارروائی سے بڑھ کر دہشت گردی دکھائی دی۔ اس جلاؤ گھیراؤ سے بڑا جرم اس پر اترانا اور فخر کرنا ہے۔ پی ٹی آئی اسے فالز فلیگ کارروائی قرار دیتی ہے۔ اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو پھر فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کس لیے؟ بڑی تعداد میں افسروں کو سزائیں کیا یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے تھا؟ اس کے پیچھے کچھ تو ہوگا!
فوج 9 مئی کو اپنے خلاف بغاوت سمجھتی ہے۔ اس لیے بار بار اس سانحہ میں ملوث کرداروں کے لیے سزا کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود فوج نے عمران خان اور پارٹی کے لیے معافی کا آپشن کھلا رکھا ہے۔ کیا پی ٹی آئی اس آپشن سے فائدہ اٹھائے گی؟ اگر نہیں تو اسے کن نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے؟ قیادت کی ہٹ دھرمی، غیر سیاسی سوچ اور میں نہ مانوں کی ضد کے باعث تحریک انصاف کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ سیاست میں کوئی چیز بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہوتی۔ اس میں کچھ ’گرے ایریاز‘ ہوتے ہیں جس میں قیادت کو کھیلنا ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان اور اس کی جماعت ان ایریاز میں کھیلنے کی صلاحیت کے فقدان کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔ سیاست میں ہر معاملے پر ڈٹ جانا، لچک نہ دکھانا، حریف کو سپیس نہ دینا سراسر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ 9 مئی کی متاثرہ فریق فوج نے عمران خان کو بند گلی میں دھکیلنے کی بجائے ان کے لیے سیف ایگزٹ کا راستہ رکھا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور اندازہ بھی مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان کو اپنے اندازہ کے مطابق نتائج نہیں ملے تو انہیں اس پرازسرِ نو غور کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے شہدا کی بے حرمتی کی، فوجی تنصیبات کو آگ لگائی، فوج پر حملے کیے، ان کی اس ریاست مخالف کارروائی کی مذمت کرنے میں کیا حرج ہے؟ سزاؤں پر اعتراض کیوں؟ عمران خان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ فوری اس کی مذمت کرتے اور ان عناصر سے اپنے آپ کو الگ کر لیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا آئے‘ کے مصداق سخت دباؤ پر عمران خان نے اس اقدام کی مذمت کی۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔
آج جبکہ ملک بھر کی اسمبلیاں اور حکومتیں وجود میں آچکیں، ملک سیاسی اور معاشی محاذ پر آگے بڑھ رہا ہے، معیشت کا ہر شعبہ مثبت اعشاریے دکھا رہا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے ریکارڈ ترسیلات زر آرہی ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم اور بڑی بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی ترقی کو سیاسی تنازعات کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سلسلے میں عمران خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں ایک مدبر سیاسی لیڈر کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو اس نازک صورتحال سے نکالنا ہے۔ جھوٹی انا اور ضد پر اڑے رہے تو ملک کا نقصان ہو جائے گا۔ حکومت کو بھی اپوزیشن کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے ان سے تعاون کرنا ہوگا۔ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں فریقوں کو انا کی قربانی دیتے ہوئے ملک کا سوچنا ہوگا۔ آپسی لڑائیاں لڑتے رہے تو دونوں کی داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔