جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن عوامی کمیٹی نے ایک سال سے اپنے مطالبات کے حق میں تحریک چلا رکھی ہے۔ ان کے تین مطالبات تھے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی، آٹے پر سب سڈی اور آزاد کشمیر کے وسائل پر کنٹرول۔ حکومت نے ان کے پہلے دو مطالبات اب مان بھی لیے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق اور ان کی کابینہ اور دیگر حکام سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد 23 ارب روپے کی فوری منظوری بھی دے دی گئی۔ بجلی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آٹے کی قیمت میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود احتجاج ایک دن مزید جاری رہنے کے بعد آخر کار ختم ہو گیا۔
یہ تحریک پر امن انداز میں جاری تھی۔ صورتحال تب بگڑی جب اس تحریک کے ستر ارکان کو چھاپے مار کر گرفتار کر لیا گیا، اس کے بعد احتجاج پورے آزاد کشمیر میں پھیل گیا۔ جو مطالبے بعد میں تسلیم کیے گئے، وہ احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی تسلیم کر لیے جانے چاہیے تھے۔ کافی خرابی کے بعد بھی تسلیم کر ہی لیے گئے۔
آزاد کشمیر میں اس احتجاج کو انڈین میڈیا خوشی سے ہائی لائٹ کرتا رہا۔ پاکستان کی بری معاشی حالت، مہنگائی سے ستائے ہوئے لوگ، انڈیا کے ساتھ تجارت کی آزاد کشمیر کے راستے بندش، اس سے بیروز گاری اور بے چینی میں اضافے کو بھی انڈین میڈیا نے ایک وجہ قرار دیا۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان نے انڈیا سے تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔ دونوں ملکوں میں اس وقت سفیر موجود نہیں ہیں۔
پاکستانی اقدام سے بھی پہلے انڈیا نے پاکستانی درامدات پر دو سو فیصد ڈیوٹی لگا دی تھی۔ اس ڈیوٹی کے بعد کشمیر کے راستے تجارت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور اس کا حجم بہت ہی کم ہو گیا تھا۔
آزاد کشمیر کی وہ قیادت رخصت ہو چکی جو مقامی لوگوں کی مزاج شناس تھی۔ سردار قیوم، سردار ابراہیم، سردار سکندر حیات، کے ایچ خورشید، سردار خالد ابراہیم اور بہت سے دوسرے اب جا چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں تقسیم در تقسیم در تقسیم ہوتی رہی ہیں۔ حوالدار بشیر کی عقلمندیوں نے کسی سیاسی جماعت کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ موجودہ سیاسی قیادت بزرگ بھی ہے اور گراؤنڈ سے اس کا رابطہ بھی کٹ چکا ہے۔ اس کے برعکس جموں کشمیر جائنٹ ایکشن عوامی کمیٹی، تحصیل یونین، وارڈ اور محلوں کی سطح تک منظم ہے۔
اس وقت آزاد کشمیر میں آل پارٹیز حکومت ہے جس میں دو تہائی ارکان شامل ہیں۔ سب ارکان کے پاس عہدے موجود ہیں لیکن عوامی حمایت صفر ہے۔ یہ حکومت عوامی موڈ کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی۔ احمقانہ انداز میں گرفتاریوں کے بعد احتجاج شدت اختیار کرتے ہوئے پھیل گیا۔
آزاد کشمیر حکومت اتنی سائیں ثابت ہوئی کہ سیاسی اقدام کرنے کی بجائے زور زبردستی سے کام نکالنے کی کوشش کرتی رہی۔ اخباری رپورٹ کے مطابق سی پیک پراجیکٹ کی سیکیورٹی کے لیے حال ہی میں پنجاب اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ رینجر کو بھی طلب کیا گیا اور پھر واپس بھجوایا گیا۔ خیبر پختون خوا کے مختصر راستے سے واپس بھجوانے کی بجائے رینجر کو کوہالہ کے راستے واپس بھجوانے دیا گیا۔ مظاہرین اس سے مشتعل ہو گئے اور سچویشن مزید بگڑ گئی۔
تفصیلات میں نہیں جاتے لیکن جس طرح ہجوم کا مطالبہ مان لیا گیا ہے۔ یہ مزید جگہوں پر بھی احتجاج کو ٹریگر کر سکتا ہے۔ وسائل پر کنٹرول کا مطالبہ تو بلوچستان کا بھی ہے، خیبر پختون خوا کو بھی بجلی کی رائلٹی چاہیے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع میں ایک ہڑتال بھی ہوئی ہے۔ ہڑتال کی وجہ یہ مطالبہ ہے کہ مالاکنڈ کو ٹیکس سے استثنا حاصل ہے۔ صوفی محمد اس ٹیکس استثنا کو لے کر نوے کی دہائی میں دو بار زور دار پرتشدد تحریکیں بھی چلا چکے ہیں۔ نان کسٹم گاڑیوں کے چکر میں سوات کے لوگوں نے اس تحریک کو سپورٹ کیا۔ بعد میں پھر شدت پسندی اور عسکریت پسندی بھگتی۔ گھروں سے بے گھر بھی ہوئے۔ سیاستدان کا کام یہی ہوتا کہ مسئلے کا اندازہ لگائے اور فوری انداز میں اسے حل کرے۔ حکومت نے مطالبات مان کر مسئلہ تو حل کر دیا، اب مزید مطالبات اور چیلنجز کے لیے بھی تیار رہے ۔
اس سارے احتجاج پر ہمارے شریک بھارت مہان کی خوشیاں دیکھنے والی تھیں۔ جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن عوامی کمیٹی کے مطالبات میں ایک مطالبہ وسائل پر کنٹرول بھی ہے۔ زیادہ با اختیار آزاد کشمیر حکومت۔ جو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ مطالبہ اگر مانا گیا اس حوالے سے کوئی دکھائی دیتی پیشرفت ہوئی تو جموں کشمیر میں انڈین حکومت کو بھی وختہ پڑ جائے گا۔ وہ زیادہ جمہوری بنتے ہیں تو ان کو زیادہ اختیار، زیادہ کنٹرول زیادہ آزادی جیسے مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تب دونوں حکومتیں شائد مل بیٹھ کر سوچنے پر مجبور ہوں کہ بہن! جیسے تمھارا دل ان مطالبات سے پھٹا ہوا ہے، ہمارا بھی ویسا ہی پھٹا ہے، مل جل کر ان کشمیریوں کا کچھ کرتے ہیں۔ ہے تو دور کی، لیکن ہمارے خطے میں دور کب نزدیک اور عن قریب ہو جائے کوئی پتہ لگتا ہے بھلا!