پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کی شرح  44 فیصد ہے، ماہرین

جمعرات 16 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈاؤ یونیورسٹی  آف ہیلتھ سائنسز، سول اسپتال کراچی  کے شعبہ امراض قلب کے سربراہ  اور پاکستان ہائپر ٹینشن لیگ کے صدر پروفیسر نواز لاشاری نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کی شرح  44 فیصد جو عالمی اوسط مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے دیگر معروف ماہرین امراض قلب کے ہمراہ بلند فشار خون کے عالمی دن کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میں سے 56 فیصد کی تشخیص نہیں ہو سکی ہے۔

پروفیسر نواز لاشاری نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ تقریبا 18.59 کروڑ لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کا خطر ناک مرض لاحق  ہے جو ان کے لیے دل کی بیماری، فالج، گردوں کی خرابی اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر کے مرض میں اضافہ  ایک پریشان کن حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بغیر تشخیص اور علاج کے ہائی بلڈ پریشر کا معاشی بوجھ بھی کافی زیادہ ہے یہ انفرادی طور پر لوگوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور قومی صحت کے نظام پر بوجھ ڈالتا ہے۔

پروفیسر نواز لاشاری نے کہا کہ سگریٹ پینا اور ویپنگ (الیکٹرک سگریٹ) دونوں کا اجتماعی اور معاشرتی نتیجہ بھی ہوتا ہے جو تعلقات، مالی حالت، اور تندرستی کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سگریٹ نوشی اور ویپنگ سے بچنا صحت کو بہتر بنانے اور نقصان دہ صحت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اہم ترین ہے۔

پی ایچ ایل کے سیکریٹری  جنرل پروفیسر عبدالرشید  خان نے کہا کہ  طویل زندگی کے لیے عادات صحت مند طرز زندگی ہائی بلڈ پریشر کے انتظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے زیادہ وزن آپ کے دل اور خون کی نالیوں پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے تھوڑا سا وزن کم کرنے سے بھی بلڈ پریشر کنٹرول میں بہتری آ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غذا میں نمک اور غیر صحت بخش چربیوں کو کم کیا جائے  اور پھل، سبزیوں اور اناج کی مصنوعات کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنائیں۔

’ویپنگ سے بھی صحت کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں‘

عبدالرشید خان نے کہا کہ ویپنگ عموماً سگریٹ پینے کا ایک محفوظ ترین بدل مانا جاتا ہے لیکن یہ بھی صحت کے خطرات پیدا کرتا ہےخاص طور پر نوجوانوں اور غیر سگریٹ پینے والوں کے لیے ای سگریٹ میں عام طور پر نکوٹین پائی جاتی ہے جو نوجوانوں میں دماغ کی ترقی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویپنگ ڈیوائسز کی ایروسول میں ضروری کیمیکلز، بھاری دھات، اور باریک ذرات شامل ہوتے ہیں اور سانس کی نالیوں کو تکلیف دے سکتے ہیں اور ویپنگ کے ساتھ زیادہ تشنج اورتنفس سے متعلق کئی معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔

اس موقع پر پروفیسر فیروز میمن نے کہا ہےکہ بغیر علاج ہائی بلڈ پریشر کےتباہ کن نتائج  کا باعث بنتا ہے ہائی بلڈ پریشر کا ابتدائی پتا لگانا اور اس کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہائی بلڈ پریشر کے بہت سے مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے اور صحت کے لیے جان لیوا حق خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

’90 فیصد مریض بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رکھ پاتے‘

سول اسپتال کے شعبہ کارڈیالوجی کے  ڈاکٹر غلام عباس شیخ  نے کہا کہ ہر 40 سال کی عمر کے بعد ہردوسرا شخص بلڈ پریشر کا مریض ہے اور بلڈ پریشر ایک مرتبہ ہونے کے بعد وہ زندگی بھر چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر صرف 10 فیصد  مریضوں میں کنٹرول ہوتا ہے جبکہ 90 فیصد مریض بلڈ پریشر کنٹرول نہیں رکھ پاتے جس کے نتیجے میں وہ پیچید گیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر فیروز میمن، ڈاکٹر اکرم سلطان، ڈاکٹر کنول فاطمہ، اور ڈاکٹر گریش کمار بھی موجود تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp