آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ہفتہ 18 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈاکٹر وزیر آغا اُردو اَدب کی ایک عہد ساز اور ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے شاعری، اِنشائیہ، تحقیق اور تنقید میں اہم اَدبی کارنامے سر انجام دیے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعے اُردو اَدب کو جدید میلانات اور رحجانات سے سرفراز کیا بلکہ اپنے جریدے ’اوراق‘ کے توسط سے بھی اہل اَدب کی فِکری و فنّی آبیاری کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ان کی درجنوں تخلیقات دنیائے اُردو میں ان کا نام روشن رکھیں گی۔

آج ڈاکٹر وزیر آغا کا 102واں جنم دن ہے۔ وہ 18 مئی 1922 کو وزیر کوٹ (سرگودھا) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 88 برس 3 ماہ اور 20 دن کی زندگی گزارنے کے بعد 7 ستمبر 2010 کی شب ساڑھے گیارہ بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہیں اگلے روز ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ میں سُپردِ خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر وزیر آغا سے میری پہلی ملاقات 2005 میں ہوئی۔ یہ ملاقاتیں ان کے سفر آخرت تک جاری رہیں۔ ان سے متعدّد بار طویل اَدبی و سیاسی گفتگو کا اعزاز حاصل ہوا۔ زیرِ نظر گفتگو جنوری 2007 میں ہوئی تھی:

ڈاکٹر صاحب! اَدب کی تخلیق کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ قلم کار کی اپنی ذات کی تشہیر یا قاری یا معاشرے کے لیے؟

عام خیال یہ ہے کہ کسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر لوگ اَدب تخلیق کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسی صورت میں اَدب کی خود روانی باقی نہیں رہتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ’مقصد‘ تخلیق کار کی ذات میں جذب ہوچکا ہو اور خود تخلیق کار کو بھی علم نہ ہوکہ وہ کس منزل یا کن منازل کی طرف گام زن ہے۔

کسی مینی فیسٹو یا نظریے کو سامنے رکھ کر اَدب تخلیق کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کامیاب نہیں ہوتی۔ تخلیق خود بتا دیتی ہے کہ وہ آورد کے تابع ہے یا آمد کے۔ گویا اَدب کا مقصد اس کے اندر مخفی طور سے موجود ہے اور یہ مقصد ہے جذبے کی تہذیب کرنا۔ جذبے کی تہذیب کا عمل خالق اور قاری کو بہتر انسان بنا دیتا ہے۔ سو اگر اَدب کی مدد سے معاشرے میں بہترین انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تو اس سے بڑا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے۔

اَدبی تحریکوں نے اَدب پر کیا اَثرات مرتب کیے؟

اَدبی تحریکیں دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو منصوبہ بندی کی پیداوار ہیں۔ ایسی تحریکیں بالعموم بعض غیر اَدبی مقاصد کے حصول کے لیے وُجود میں آتی ہیں۔ دُوسری وُہ جو اَزخود جنم لیتی ہیں۔ وُہ تحریک جو کسی مینی فیسٹو کے تابع ہو‘ اَدب کو پیش پا اُفتادہ انداز اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اُس کے نزدیک اَدب کا مقصد اصلاحِ اَحوال کے لیے زمین ہموار کرنا اور بعض مقاصد کے حصول کے لیے اَدب کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ ایسی تحریک اعلیٰ پائے کا اَدب تخلیق نہیں کرپاتی۔ ترقی پسند تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اِس کے تحت اَدب، مقصد کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا۔ تاہم بعض ترقی پسند ادیب، جنھوں نے عالِم خود فراموشی میں اَدب تخلیق کیا (یعنی جب وہ مقصد کے تابع نہیں تھے)‘ اس میں کامیاب ہوئے۔ تحریک کے اَدب پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں بشرطیکہ وُہ خود رَو ہو اور اَدب کی تخلیقی قوت کو پیش نظر رکھے۔ ایسی تحریک جذبات کی تہذیب کرکے آدمی کو انسان کے مرتبے پر فائز کردیتی ہے۔

کیا اُردو اَدب پر انجماد طاری ہے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اُردو اَدب پر انجماد طاری ہے مگر میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ پچھلے ساٹھ پینسٹھ برسوں کے دوران میں بہت سی اصناف میں بہت اچھا کام ہوا ہے۔ مثلاً افسانے، انشائیے، نظم، غزل آپ بیتی وغیرہ میں قابلِ قدر پیش رَفت ہُوئی ہے۔ تاہم جہاں تک اُردو ناول کا تعلق ہے، اس کی ترقی کی رفتار سُست ہے۔ بے شک ہمارے ہاں اچھے ناول لکھے گئے ہیں لیکن اُن کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسرے اُن میں سے کوئی بھی ناول عالمی مین سٹریم میں داخل نہیں ہوا۔ آج ناول کا زمانہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے کسی بھی ناول کو بین الاقوامی سطح پر سراہا نہیں گیا۔

مغرب میں اَب افسانے کو ایک ثانوی درجے کی صِنف قرار دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں بہت اچھے (بینُ الاقوامی سطح پر اہمیت کے حامل افسانے) لکھے گئے ہیں۔ یہی حال جدید اُردو نظم کا ہے۔ ہماری جن اُردو نظموں کے معیاری تراجم مغرب میں پہنچے ہیں‘ انھیں سراہا گیا ہے۔ ہمارا انشائیہ بھی اعلیٰ معیار کا ہے اگر اسے دنیا کی بڑی زبانوں میں منتقل کیا جائے تو اسے قدر کی نظروں دیکھا جائے گا۔ نئی اُردو غزل نے بھی اس عرصے میں کئی کروٹیں لی ہیں مگر غزل کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنا آسان نہیں اس لیے یہ بین الاقوامی سطح پر مقبول نہیں ہوسکتی۔ دنیا کی مین سٹریم میں شامل ہونے کی بات اپنی جگہ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلی نصف صدی کے دوران میں اُردو ادب نے بہت ترقی کی ہے۔ اگر اس عرصے میں لکھے گئے اُردو ادب کا کڑا انتخاب کیا جائے تو اس کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

اداس نسلیں، آگ کا دریا، راکھ، آنگن اور راجہ گدھ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

اداس نسلیں، آگ کا دریا اور راجہ گدھ اچھے ناول ہیں اور برصغیر کی حد تک مقبول بھی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک عمدہ ناوِل غلامُ الثقلین نقوی کا میرا گاؤں کے نام سے ہے۔ ہمارے ہاں اچھے ناوِلوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ممکن ہے‘ آگے چل کر اچھے ناوِلوں کی تعداد میں اِضافہ ہو اَور پھر کسی روز کوئی ایسا ناوِل بھی سامنے آجائے جسے بین الاقوامی سطح پر بھی اَہمیت حاصل ہو۔

انتظار حسین اُردو افسانے کا ایک بڑا نام ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

انتظارحسین کا نام تو بہت بعد کا ہے۔ اُن سے پہلے منٹو ہیں‘ غلام عباس ہیں اور…

میرا سوال افسانے کے موجودہ کینوس کے تناظر میں تھا۔

موجودہ دور میں تین نام اہمیت کے حامل ہیں، ڈاکٹر رشید امجد، منشا یاد اور انتظارحسین۔ میڈیا کی وجہ سے اگر کسی افسانہ نگار کو زیادہ شہرت مل جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وُہ نمبروَن ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر آج کے افسانہ نگاروں کا ذکر آئے تو ہم ان تینوں کو بریکٹ کریں گے۔

کیا معیار کے حوالے سے ہم اِن کی نمبرنگ کرسکتے ہیں؟

میرا خیال ہے، ہمیں اَیسا نہیں کرنا چاہیے۔ جب تینوں لکھ رہے ہیں (یعنی میراتھون دوڑ میں شامل ہیں) تو اس کا فیصلہ بعد میں وقت ہی کرے گا۔ اس وقت تو ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ دَوڑ میں آگے آگے کون ہیں۔۔۔۔ اَیسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پیچھے سے کوئی اَور آگے بڑھے اور انھیں پیچھے چھوڑ جائے۔

اَدب میں مَرد عورت کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔ کیا ہم خالدہ حسین کا نام اس بریکٹ میں لے سکتے ہیں؟

کیوں نہیں؟ اگر بریکٹ کو کشادہ کردیا جائے تو اس میں خالد حسین کے علاوہ فرخندہ لودھی‘ جمیلہ ہاشمی‘ بانو قدسیہ اور بعض دیگر خواتین کے نام اَزخود شامل ہوجائیں گے۔

آپ اَدیب اَور معاشرے کے رِشتے پر روشنی ڈالیں گے؟

دیکھیے‘ جو مسائل معاشرے کے ہیں‘ وہی اَدیب کے ہیں۔ ادیب دو دنیاؤں میں رہتا ہے۔ ایک تو خارجی دُنیا ہے جس میں وُہ دُوسروں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اَور زِندگی کی خُوشیوں اَور غموں میں شریک ہوتا ہے۔ دُوسری داخلی دُنیا ہے‘ اَور دونوں میں فرق یہ ہے کہ اَدیب کے ہاں دُنیادی مسائل اُس کی ذات میں داخل ہوکر تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں اَور یُوں اُن کی قلبِ ماہیّت اس طَور ہوجاتی ہے کہ وُہ چیزے دیگر بن جاتے ہیں۔

تخلیقی عمل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟

تخلیقی عمل میں تین کردار تخلیق کار‘ متن اَور قاری حصّہ لیتے ہیں۔ تخلیق کار اَپنے تخلیقی تجربے کی تجسیم کرتا ہے اَور قاری نہ صرف تجسیم کے عمل میں تخلیق کار کا ساتھ دیتا ہے بلکہ وُہ تخلیق کے مکمل ہونے پر اس کی قرات بھی کرتا ہے۔ پہلی صورت میں وُہ تخلیق کار کا ہم زاد ہے اَور ایک ہی منفرد تخلیقی تجربے سے گزرنے کے باعِث تخلیق کار کے عملِ تخلیق میں بھی حصّہ لیتا ہے۔ دُوسری صورت میں وُہ متن کو پڑھ کر‘ اُس میں موجود خلا کو اَپنے تخلیقی عمل سے پُر کرتا ہے۔ لہٰذا قاری یا نقاد بھی اَصلاً ایک تخلیق کار ہے۔ رہا متن کا معاملہ تو متن کا بھی اپنا ایک منفرد کردار ہے۔ اسے تخلیق کار وُجود میں تو لاتا ہے لیکن تخلیق کے سفر میں وہ اکثر مصنف کی گرفت سے آزاد ہو کر اَپنی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔

نظموں کا مجموعہ کاسہ شام ڈاکٹر وزیر آغا کی پہلی برسی پر شائع ہوا تھا، اس میں شامل ایک نظم انہوں نے مجھے تحفتاً عطا کی تھی

کہا گیا ہے کہ جب ناقہ سوار مسافر صحرا میں راستہ بھُول جائے‘ اُسے ناقے کو اَپنے اَندازے کے مطابق نخلستان کی طرف لے جانے کی کوشش کرنے کے بجائے‘ ناقے کو اُس کی اپنی مرضی سے سمت کا انتخاب کرنے کی اجازت دینا چاہیے، ورنہ وہ کسی منزل پر پہنچ نہیں پائے گی۔ یہی حال متن اَور تخلیق کار کا ہے کہ تخلیق کاری کے بہاؤ کی گرفت میں آنے کے بعد تخلیق کار کو متن پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہیے اُسے خود متن کو تخلیق کاری کے مراحل میں سے گزرنے کی اجازت دینا چاہیے۔ گویا تخلیق کاری میں تخلیق کار اور متن دونوں مل جل کر راستہ طے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ کیا ادب کی ترویج کے لیے اس کا سہارا لینا ضروری ہے؟

اَدب کی ترویج کے لیے بہترین ذریعہ کتاب ہے لیکن آج کے دَور میں الیکٹرانک میڈیا جس میں فلم‘ ریڈیو اور انٹرنیٹ شامل ہیں‘ اَدب کی ترویج کے لیے یقیناً معاون ثابت ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں؛ تاہم اس سلسلے میں کتاب نے جو کردار اَدا کیا ہے‘ میڈیا اُس کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ کتاب تو مصنف کی شبیہ ہے۔ آپ کتاب کو کھولتے ہی مصنف سے ہم کلام ہوجاتے ہیں اَور خارجی بصارت کے بجائے‘ داخلی بصارت یعنی متخّیلہ سے مدد لے کر کتاب کو فلمانے لگتے ہیں‘ گویا کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کی آنکھ سے پڑھنے کے بجائے آپ اپنی داخلی آنکھ سے اَدب پڑھتے ہیں۔۔۔ اس عمل سے بصارت، بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اَور یہ بہت بڑی بات ہے۔

اَخبارات کے اَدبی اَیڈیشن اور اَدبی رسائل‘ درست سمت میں قاری کی رہنمائی کررہے ہیں؟

وُہ اخبارات اَور رسائل جو اَدب کے بارے میں معلومات مہیا کرتے ہیں اَور قاری کے ذوقِ نظر کو سنوارتے ہیں‘ اُن کی اَہمیت سے کون اِنکار کرسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے بیشتر اَدبی اَیڈیشن اور جراید‘ اَدب کے حوالے سے کِردار کشی کے مُرتکب بھی ہوتے رہتے ہیں اَور اُدبا کی باہمی آویزش کو ہَوا دینے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ تاہم مجموعی طور پر اَخبارات اَور رسائل نے نوجوان نسل کو اَدب کے وسیع تناظر سے آگاہ کیا ہے اور یہ ایک اَہم خدمت ہے۔

اَوراق اور فنّون کی خدمات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

اَوراق اور فنّون کا قریباً ایک ہی زمانہ تھا۔ اب فنّون کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بند ہوگیا ہے‘ اَور اَوراق بھی اَب تعطل کا شِکار ہے۔ دونوں پرچے کم و بیش چالیس برس تک مطلعِ اَدب پر موجود رہے۔ اگر آپ اِن کا جائزہ لیں تو آپ کو محسُوس ہوگا کہ چالیس برسوں میں ان دونوں مجلّوں نے ادب کے لیے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے تحت اَدب کی مختلف اَصناف کو فروغ دیا۔

تصویر: مشکورعلی

اَوراق کے حوالے سے کَہہ سکتا ہوں کہ اس نے جدید نظم‘ جدید افسانے‘ انشائیے‘ ماہیے‘ ہائیکو اَور دیگر اصناف کو دائرہ نور میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ’جدیدیت‘ اَور بعداَزاں ’مابعدجدیدیت‘ سے اَذہان کو آشنا کیا۔ اَوراق کے پیشِ نظر سب سے بڑا مقصد خرد اَفروی کے مسلک پر توّجہ مرکوز کرنا تھا۔ چنانچہ علوم کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہی کام فنّون نے اَپنے نقطہ نظر کے مطابق انجام دیا۔ اَوراق میں ’سوال یہ ہے‘ کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں کوئی ایک دانش وَر اَدب سے جُڑا ہَوا کوئی سوال اُٹھاتا او متعدد دانش وَر اَپنے اَپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے۔ پچھلے دِنوں ملتان کی ایک خاتون نوشی انجم نے اِن جُملہ مَباحث کو کتابی صورت میں شائع بھی کرادیا ہے۔ مختصر یہ کہ اِن دونوں پرچوں نے علم و اَدب کے حوالے سے جو خدمات انجام دی ہیں اُن سے اہلِ نظر پُوری طرح وَاقف ہیں۔

گزشتہ نصف صدی کے کینوس کو سامنے رکھا جائے تو آپ کے خیال میں اُردو اَدب کی کسی صنف نے زیادہ ترقی کی ہے؟

تین اصناف نے نسبتاً زیادہ ترقی کی ہے۔ اَور وُہ ہیں افسانہ‘ نظم اَور اِنشائیہ۔

اُردو اَدب کے پورے تناظر میں بہترین افسانہ نگار کون کون ہیں؟

تقسیم سے پہلے کرشن چندر‘ غلام عباس‘ راجندر سنگھ بیدی‘ اَور ممتاز مفتی نمایاں ہوئے تھے۔

آپ نے منٹو کا نام نہیں لیا ۔۔۔ کیوں؟

منٹو کو کون نظر انداز کرسکتا ہے۔ وہ تو بڑے افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ تقسیم کے بعد رشید امجد‘ منشا یاد‘ انتظار حسین اور غلامُ الثقلین نقوی کا نام اُبھر کر سامنے آیا۔

ڈاکٹر وزیرآغا کی آپ بیتی ، شام کی منڈیر سے

موجودہ دور میں اُردو کا جینوئن شاعر کون ہے؟

کوئی ایک ہو تو بتاؤں ۔۔۔۔ مناسب یہ ہے کہ شانہ بشانہ آگے بڑھنے والوں کی نشان دہی کی جائے نہ کہ حتمی طَور پر کسی ایک کو جینوئن شاعر کہا جائے۔ دُوسری بات یہ ہے کہ شاعری کی بھی متعدّد اَصناف ہیں اور ہر صِنف میں کسی ایک یا متعدّد شعرا نے اپنی تخلیقی حیثیت منوائی ہے۔ اس حوالے سے ایک طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے ۔ ایک یہ بات بھی ہے کہ وُہ شاعر جو رُخصت ہوچُکا ہے‘ اُس کے بارے میں تو حتمی بات کہی جاسکتی ہے مگر جو بقیدِ حیات ہو‘ اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا گراف اوپر جائے گا کہ سَر بہ سجود ہوجائے گا۔ جدید علم کے حوالے سے ہم کَہہ سکتے ہیں کہ راشد، میراجی، مجید امجد اور فیض جینوئن شاعر تھے اور ان کی حیثیت مسلّم ہے۔ ان کے علاوہ اَور شاعِر بھی ہیں جنھیں ہم کچھ عرصے کے بعد جینوئن قرار دے سکیں گے۔

گزشتہ دنوں آپ کے ایک انٹرویو (روزنامہ جنگ کے لیے سہیل وڑائچ) میں سے شہ سُرخی نکالی گئی کہ فیض کے ہاں سطحی رومانویت ہے۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے؟

میں اپنے انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ امریکا کی ایک وَرکشاپ میں جب طلبا کے سامنے فیض کی بعض نظموں انگریزی تراجم برائے تبصرہ پیش کیے گئے تو طلبا کا یہ تاثر تھا کہ ان نظموں میں سطحی رومانویت پیش ہوئی ہے۔ دراصل میں یہ کَہہ رہا تھا کہ تراجم اچھے نہ ہوں تو سننے یا پڑھنے والے‘ اُن سے غلط تاثرات مرتب کرتے ہیں۔ میں نے ہرگز یہ نہیں کہا تھا کہ فیض کے ہاں سطحی رومانویت ہے۔ یہ تو سرخی نکالنے والے کا کمال ہے کہ اُس نے متن کی رُوح کے مَنافی‘ امریکی طلبا کا تاثر میرے کھاتے میں ڈال دیا۔

آپ کا نمائندہ شعر یا وُہ شعر جو خود آپ کو پسند ہو؟

پسندیدہ اشعار تو بہت ہیں … فوری طور پر ایک شعرسن لیں:

جائیں گے ہم بھی خواب کے اُس شہر کی طرف

کشتی    پلٹ    تو    آئے مسافر    اُتار    کے !

آج کل آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟

میں نے 1986 میں ’شام کی منڈیر سے‘ مکمل کی تھی۔ یہ میری آپ بیتی ہے۔ اَب تک اس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ایک پاکستان میں‘ دُوسرا بھارت میں۔ اس لکھے ہوئے بیس برس ہوچکے ہیں۔ احباب کا تقاضا تھا کہ مَیں اسے مکمل کروں ۔ پچھلے برس مَیں نے (دو تین ماہ میں) اِسے مکمل کرلیا۔ اَب یہ پبلشر کے پاس ہے جو اِسے جلد ہی شائع کردے گا۔ آج کل مَیں اِس کتاب کے پروف پڑھ رہا ہُوں‘ گویا گرے ہوئے زمانوں کی باز آفرینی کر رہا ہُوں ۔۔۔۔ بڑا لطف آ رہا ہے۔

آپ کو انشائیے کا سَرخیل کہا جاتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی‘ بالخصوص اَدب کے طلبا کے لیے بتائیں گے کہ انشائیہ کیا ہے؟

عرصہ ہوا مَیں نے اپنے ایک مضمون میں انشائیے کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ اُس غیر افسانوی نثر کا نام ہے جس میں تخلیق کار‘ اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اَشیا یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور‘ اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر‘ ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس تعریف یا Definition میں اِنشائیے کے تین اوصاف کا ذکر ہُوا ہے۔ پہلا یہ کہ اِنشائیہ اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے‘ مُراد یہ کہ اِنشائیہ عام سی کاروباری زبان استعمال نہیں کرتا‘ اَپنی تخلیقی اُپج کی مدد سے عام الفاظ کو اس طَور منقلب کرتا ہے کہ وُہ لَو دینے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا اپنی آخری سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں۔ عابد ملک، ابراہیم راجا، مشکورعلی اور اویس یوسفزئی موجود ہیں

دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اِنشائیہ نگار شے یا مظہر کے خفی مفہُوم کو سامنے لاتا ہے ۔۔۔۔ جس طرح بُت تراش‘ پتّھر میں پوشیدہ شبیہ تک پہنچنے کے لیے فاضل پتّھر کے بُوجھ کو ہَٹا دیتا ہے، اُسی طرح اِنشائیہ نگار تمام رُکاوٹوں کو ہَٹا کر شے یا مظہر کے بطون میں چھپے معنی تک پہنچتا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ اِنشائیہ نگار معنی کے تناظر کو وسیع کرتا ہے جس سے اُسے ایک نئی صورتِ حال دِکھائی دینے لگتی ہے ۔۔۔۔ جس طرح آپ کسی پہاڑی پر چڑھ کر اِرد گِرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ایک بالکل نیا منظر دِکھائی دے گا‘ اُسی طرح جب اِنشائیہ نگار ایک کشادہ مدار میں سفر کرتا ہے تو گویا معنیاتی توسیع کا اہتمام کرتا ہے۔

انشائیے اور طنزیہ مزاحیہ مضمون میں کیا فرق ہے؟

طنزیہ مضمون‘ طنز کی جراحت سے ناہمواریں کا قلع قمع کرتا ہے۔ مزاحیہ مضمون‘ ناہمواریوں سے لطف اَندوز ہوتا ہے۔ اِن کے برعکس اِنشائیہ‘ اَشیا اَور مظاہر کے بیان میں معنی آفرینی کا اہتمام کرتا ہے۔ اِنشائیے کے لیے کوئی موضوع بھی ٹیبو نہیں۔ اس طرح وُہ بقدرِ ضرورت مزاح طنز اَور رمز یعنی Irony سے بھی کام لیتا ہے مگر اُنھیں خود پر غالب نہیں آنے دیتا۔ اِنشائیہ نگار کا اصل مقصد موضوع کو اس طرح منقلب کرنا ہوتا ہے کہ ایک نیا معنی جنم لے۔ مثلاً اُردو کے ایک اِنشائیے آندھی میں اِنشائیہ نگار‘ رمزیہ انداز میں آندھی کی برکات کا ذکر کرتا ہے اَور اُسے معاشرے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے‘ اور آخر میں کہتا ہے کہ شخصیت کی تکمیل بھی آندھی کے بے رحم تھپیٹروں ہی کی مرہُون مِنت ہے اَور جس شخص کی زِندگی میں کبھی آندھی نہیں آئی‘ اُس کی حالت قابلِ رحم اور ذہنی پختگی محلِّ نظر ہے۔

اُردو کے اچھے اِنشائیہ نگار کون کون ہیں؟

مشتاق قمر اور غلام جیلانی اصغر تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اِن دونوں نے بہت خوبصورت اِنشائیے تحریر کیے۔ اِن کے علاوہ جمیل آذر‘ انور سدید‘ اکبرحمیدی‘ انجم نیازی‘ حیدر قریشی‘ سلیم آغا قزلباش اَور نئے لکھنے والوں میں شاہد شیدائی‘ منوّرعثمانی‘ ناصر عباس نیّر‘ شفیع ہمدم اَور بہت سے دیگر اِنشائیہ نگاروں نے زندہ رہنے والے اِنشائیے لکھے ہیں۔

ادبی مقبولیت سسُت روی سے چلتی ہے …. ایسا کیوں ہے؟

* اس کی دو صورتیں ہیں۔ بعض اُدبا کو بہت جلد مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے اور بعض کو آہستہ آہستہ حاصل ہوتی ہے۔ ایسی مقبولیت جو مشاعرے دنیاوی مرتبے تعلقات یا میڈیا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے وہ بالعموم وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے چلے جاتی ہے۔ بعض اُدبا جلد مقبول ہوتے ہیں او تا دیر مقبول رہتے ہیں لیکن ایسے اُدبا کی تعداد بہت کم ہے ۔ دوسری صورت اُن اُدبا کی ہے جن کے قارئین ان کے اَپنے زمانے میں نسبتاً کم ہوتے ہیں مگر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اَور نئی نسلیں سامنے آتی ہیں، اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوتے چلا جاتا ہے۔ ایسے اُدبا وقت سے پہلے آتے ہیں اَور اُن کے قارئین کافی دیر کے بعد نمودار ہوتے ہیں۔ میرزا غالب اِس کی مثال ہے جس کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ انیسویں صدی کا غالب آج اکیسویں صدی پر غالب ہے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست !

عالمی ادب پر آپ کی گہری نظر ہے۔ آپ کو کس زبان کے ادب نے زیادہ متاثر کیا؟

اعلیٰ پایے کی تخلیق کاری تو قریب قریب ہر زبان میں ہوئی ہے۔ انگریزی زبان میں لکھے گئے ادب سے تو براہ راست متعارف ہُوا ہُوں مگر دیگر زبانوں کا ادب میں نے انگریزی کی وساطت سے پڑھا ہے۔ کسی ایک زبان کے ادب کو بطور خاص نشان زد کرنا بہت مشکل ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اپنی نظم سناتے ہوئے۔ تصویر : مشکورعلی

بس یہ کہنا ممکن ہے کہ مین سٹریم میں جو کتاب آجاتی ہے اُس سے قارئین (بالعموم) متعارف ہو جاتے ہیں۔ بیسویں صدی میں قریباً تمام زبانوں میں اعلیٰ درجے کا کام ہوا ہے اَور مَیں اُس سے متاثر ہُوا ہُوں۔

تخلیقات کے حساب سے بڑے بڑے اُدبا‘ عام زندگی میں اَپنی تحقیقات سے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

بڑے چھوٹے کا مسئلہ نہیں ہر ادیب دو دنیاؤں کا باسی ہوتا ہے۔ ایک دنیا عام زندگی والی دنیا ہے جس میں اسے سوسائٹی اور کلچر کی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر انگلیاں اُٹھتی ہیں۔ دوسری دنیا اندر کے منطقوں کی دنیا ہے جو پُراسراریت میں ڈوبی ہوتی ہے۔ تخلیق کار‘ جب اس دنیا میں فعال ہوتا ہے تو سطح کی دنیا اس کی نظروں اوجھل ہوجاتی ہے لہٰذا وُہ اپنے باطن کے تقاضوں مطابق تخلیق کرتا ہے۔ یہ تقاضے دنیاوی مسائل سے ماورا ہوتے ہیں۔ سو یہ دو Domains کا مسئلہ ہے۔ تخلیق کار‘ اپنی تخلیقات میں جس منصب پر فائز ہوتا ہے عام زندگی میں وہ اس پر قائم نہیں رَہ پاتا۔ یہ بات مستثنیات کے تابع بھی ہے اور ایسے اُدبا بھی نظر آتے ہیں جو تخلیق کار کے اعلیٰ منصب کو عام زندگی میں بھی برقرا رکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ تاہم تخلیق کار کی کارکردگی کو دنیادی تقاضوں کی میزان پر تولنا نہیں چاہیے‘ دیکھنا صرف چاہیے کہ اس کے ہاں تخلیق کا معیار کیا ہے۔

زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو آج بھی آپ کو یاد آتا ہو؟

یہ واقعہ آج سے کم و بیش ستر برس پہلے کا ہے۔ اُن دنوں میں گورنمنٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور اپنے ایک عزیز کے ہاں رہتا تھا۔ سردیوں کے دن تھے‘ میں ایک روز گھر کے باہر دھوپ میں بچھی ایک چار پائی پر نیم دراز تھا کہ سائیں چھلّے شاہ آگیا او دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا۔ سائیں چھلّے شاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک پہنچا ہُوا درویش ہے مگر ہم نوجوان اسے خاطر میں نہ لاتے تھے اور اس کے ساتھ اکثر ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے۔ اُس روز بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ اچانک سائیں چھلّے شاہ نے مجھ سے کچھ رقم طلب کی۔ میں نے فورا کہا: میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے (اس وقت میری جیب میں ایک دو روپیہ ہوگا مگر یہ رقم بھی میں اسے کیوں دیتا)۔

8 ستمبر 2010: وزیر کوٹ میں آغاصاحب کی تدفین کے بعد

اس پر سائیں چھلّے شاہ نے قریباً چیخ کر کہا تم کہتے ہو کہ پیسے نہیں ہیں تو وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے کہا: کون سا دس روپے کا نوٹ؟ مگر سائیں چھلّے شاہ نے میری بات کا جواب نہ دیا اَور وُہ بڑبڑاتے ہوئے چلا گیا۔ دو پہر کو جب میں نہانے کے لیے غسل خانے میں گیا تو قمیص کے نیچے پہنی ہوئی رُوئی کی بنڈی کی جیب سے میرا ہاتھ ٹکرایا اور میں رک گیا کیونکہ آواز کا غذ کی تھی۔ بنڈی کی جیب سلی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ دو ماہ پہلے جب میں اپنے گاؤں سے جھنگ کے لیے روانہ ہوا تھا، میری ماں نے بنڈی کی جیب میں دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سی دیا تھا کہ پردیس میں اگر ضرورت پڑ جائے تو میرے پاس کچھ رقم ضرور موجود ہو۔ میں بہت حیران ہوا کہ سائیں چھلّے شاہ کو اُس دس روپے کے نوٹ کا کیسے علم ہوگیا۔

علامتی افسانے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ترقی پسند افسانے نے پلاٹ اور کردار کے حوالے سے زمانے کی معاشی اور معاشرتی صورت حال اور اس کے مسائل پر تمام تر توجہ مرکوز کی تھی۔ گویا یہ افسانہ حقیقت پسندی کا علم بردار تھا اور زندگی کی معروضی سطح کو تمام تر اہمیت تفویض کر رہا تھا۔ علامتی افسانہ اس کے رد عمل میں سامنے آیا اور اس نے داخلی صورت حال کو موضوع بنایا اور اشیا اور مظاہر کی پرچھائیں کو پکڑنے کی کوشش کی۔ گویا جہاں ترقی پسند افسانے نے ٹھوس حقیقت پر تمام تر توجہ مرکوز کی وہاں علامتی افسانے نے داخلیت کے منطقے کو موضوع بناکر بالا بالا اُڑ جانے کا مسلک اختیار کیا۔ دونوں انتہائی صورتیں تھیں۔ بعد ازاں افسانے میں پلاٹ اور کردار واپس آگئے مگر علامتی ابعاد کے ساتھ! گویا یہ خارِج اور داخل کے اِمتزاج کی ایک صُورت تھی۔ علامتی افسانے کا یہی رُوپ قابلِ قبول قرار پایا اور اِس کے تحت اُردو میں اعلیٰ درجے کی تخلیقات سامنے آئیں۔

آپ کا کہنا ہے کہ نثری نظم کو شاعری میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

نثری نظم کو فن پارے کی حیثیت سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نثری نظم کے نام بہت اچھی تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ میں دراصل نظم اور نثر کے فرق کی بات کررہا تھا۔ فرق آہنگ کا ہے نظم میں شعری آہنگ کار فرما ہوتا ہے اور نثر میں نثری آہنگ۔ چونکہ نثری نظم نثری آہنگ کے تابع ہے اس لیے اسے شاعری کے زمرے میں تسلیم کرنے سے شاعری اور نثر کا فرق معدوم ہو جائے گا جو قابل قبول نہیں۔ لہٰذا اس کے لیے کوئی ایسا نام تجویز ہونا چاہیے جس میں تو نظم کا لفظ آئے او نہ نثر کا۔

اُردو میں ہائیکو بھی لکھا گیا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

ہائیکو ایک ایسی صنف ہے جسے دنیا کی بیشتر زبانوں نے قبول کرلیا ہے۔ اُردو میں بھی اس صنف کے کچھ اچھے نمونے سامنے آئے ہیں تاہم اکثر لوگوں نے اس کی ہیئت کو تو قبول کیا ہے مگر اس کے مزاج کو درخورِاعتنا نہیں سمجھا۔ ہائیکو کا تعلق فطرت سے ہے۔ یہ زمین سے آسمان تک پھیلے ہوئے مظاہر سے منسلک ہو کر اور ایک خاص زاویہ نگاہ کو بروئے کار لا کر اپنی ایک شعری کا ئنات تخلیق کرتا ہے۔ اگر اس میں محض نظم، غزل یا دیگر شعری اصناف کے موضوعات پیش کیے جائیں تو یہ اپنی خاص خوشبو اور مزاج سے محروم ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ ہمارے ہاں زیادہ تر یہی کچھ ہوا ہے۔

اُردو شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال ہونا چاہیے یا نہیں؟

اس کا دارو مدار لفظ کی نوعیت پر ہے۔ ایسے الفاظ جن کا متبادل ہماری زبان میں نہیں یا جو عالمی سطح پر رائج ہیں (مثلاً بگ بینگ، ایٹم، ریل، ووٹ، اسٹیشن وغیرہ) اگر زبان میں داخل ہوں (جیسا کہ اُردو زبان میں آچکے ہیں ) اور فطری انداز میں اُردو کے شعری نظام میں بھی داخل ہوں تو اس میں کوئی ہرج نہیں، لیکن الفاظ فیشن کے طور پر آئیں تو اس سے زبان کی صورت بگڑ سکتی ہے (اور بگڑ رہی ہے)۔ خود ہمارے شعرا اس سلسلے میں محتاط رہیں تو اس سے نہ تو زبان میں غدر کا انداز پیدا ہوگا اور نہ ہی شاعری میں ایسے بگاڑ کی صورت پیدا ہوگی کہ وہ مصنوعی نظر آنے لگے۔

گلوبلائزیشن ہمارے لیے کتنی مفید ہے؟

گلوبلائزیشن ایک رَو ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہے کہ یہ انسان کو ایک بہتر اور برتر زمانے کا خواب دکھا رہی ہے اور نقصان بھی کہ یہ اپنے بہاؤ میں بہت سی انسانی قدروں کو پامال کر رہی ہے۔ ادیب کے لیے مسئلہ اسے قبول یا رد کرنے کا نہیں اُس کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ تخلیقی سطح پر اس کے رُوبرو ایستادہ ہو اور پھر اپنے محسوسات کو اَدب میں منقلب کرے۔ اگر تخلیق کاری کے دوران میں گلوبلائزیشن ایک محرک کا کردار ادا کرے تو اس سے اَدب میں گہرائی اور تنوع یقیناً ابھر آئے گا۔

کوئی غزل یا نظم مکمل کرنے کے بعد آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟

ظاہر ہے کہ سیرابی کا احساس جاگتا ہے اور جمالیاتی حظ حاصل ہوتا ہے مگر میں اِس کے علاوہ شعری تخلیق کے ساتھ رہنا بھی شروع کر دیتا ہوں۔ سو وقفے وقفے سے اُس میں لفظی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اَب شعری تخلیق مکمل ہوگئی ہے۔ یہ ایک وہبی عمل ہے ۔۔۔۔ اندر والا اگر تخلیق سے مطمئن ہوجائے تو سمجھئے کہ تخلیق مکمل ہوگئی ہے۔

مؤرخ اور ناول نگار میں کیا فرق ہے؟

مورخ، دستیاب تاریخی مواد کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ تاریخ کی چھپی ہوئی کروٹوں کی نشان دہی کرسکے۔ ناول نگار اپنے عہد کو اپنے باطن میں منعکس دیکھتا ہے۔ وہ پورے عہد کی قلب ماہیت کرتا ہے جس میں نہ صرف دورِ حاضر منقلب ہوجاتا ہے بلکہ گزرے ہوئے زمانے بھی آمیز ہو جاتے ہیں مختصر یہ کہ مؤرخ، تاریخ کو قلم بند کرتا ہے جبکہ تخلیق کار تاریخ کو ازسر نو تخلیق کرتا ہے۔

ادب میں اسلوب کی کیا اہمیت ہے۔ یہ بھی بتائیے کہ موجودہ فکشن کا اسلوب کیا ہونا چاہیے؟

ہرتخلیق کار کا ایک اپنا اسلوب ہوتا ہے جسے آپ تخلیق کار کا دستخط بھی کَہہ سکتے ہیں‘ لیکن ہر زمانے میں ایک مجموعی اسلوب بھی تشکیل پاتا ہے جس میں بعض خصائص، قدر مشترک کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ جب زمانہ بدلتا ہے یہ اسلوب جاری نہیں رہتا۔ وہ ادیب جو خود کو شعوری طور پر اجتماعی اسلوب کے تابع کر لیتے ہیں، اُن کے ہاں کلیشے جنم لیتے ہیں آؤ وہ نقالی کی زد پر آجاتے ہیں۔ لہٰذا ہر تخلیق کار کا اپنا اسلوب ہی اصل بات ہے، یعنی وہ اپنے عہد کے اجتماعی اسلوب کی جہت سے تو جڑا ہوا ہو لیکن اُس کا اپنا اسلوب دیگر تمام اسالیب سے مختلف اور منفرد دکھائی دے۔

نیم ادبی ناولوں اور ڈائجسٹوں کی بھر مار کے ساتھ ساتھ مختلف چینلز پر بے تحاشا غیر معیاری ڈرامے بھی نظر آرہے ہیں‘ جس سے ادب کا معیار کم ہوا ہے اَور سنجیدہ قارئین کی تعداد بھی کم ہونے لگی ہے۔ آپ کا تاثر کیا ہے؟

ہمارے ہاں جمالیاتی حظ کی تحصیل کے بجائے تفریح حاصل کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ جمالیاتی حظ عطائے خداوندی ہے جس سے انسان وہ کچھ حاصل کرتا ہے جو عام تفریح مہیا نہیں کرسکتی۔ موجودہ دور تفریح کی طرف نسبتاً زیادہ مائل ہے اور جمالیاتی حظ سے محروم ہوتے چلا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

موجودہ تنقیدی منظر نامے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

تنقید دو طرح کی ہوتی ہے: نظری تنقید اور عملی تنقید۔ نظری تنقید کے میدان میں اُردو والوں نے زیادہ تر مغرب سے استفادہ کیا ہے (بالخصوص انگریزی زبان میں لکھی گئی تنقید سے)۔ مثلاً پچھلے بیس برسوں کے دوران میں ہم نے مغرب کی ’تھیوری‘ کا خوب مطالعہ کیا ہے‘ رُوسی ہیئت پسندی‘ نئی تنقید‘ ساختیات او ساخت شکنی کے بہت سے مباحث سے ہم باخبر ہوئے ہیں؛ تاہم بعض ناقدین نے مغرب کی تھیوری کو مشرقی دانش کے تناظر میں دیکھا ہے اور اَپنے طور پر نتائج اخذ کیے ہیں۔ نظری تنقید کے حوالے سے یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ رہا عملی تقید کا معاملہ تو اس سلسلے میں ہمارے ناقدین نے کافی زیادہ خاصا اوریجنل کام کیا ہے (بالخصوص تخلیقات کے تجزیاتی مطالعوں کے حوالے سے)۔

اس میدان میں کون سے لوگ اچھا کام کر رہے ہیں؟

نظری تنقید میں (مغربی تنقید کے حوالے سے) رفیق سندیلوی اور ناصر عباس نیر نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے تو ہمارے ہاں تھیوری کو قبول ہی نہیں کیا گیا تھا مگر اب بہت سے طلبا اور اساتذہ اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، خاص طور پر یونیورسٹیوں میں اب تھیوری کو بہت اہمیت مل رہی ہے۔ عملی تنقید کے حوالے سے بھی بہت عمدہ اوریجنل کام ہوا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ اقبال آفاقی‘ ناصر عباس نیر‘ رفیق سندیلوی‘ ڈاکٹر رؤف نیازی‘ پروین طاہر‘ شاہد شیدائی‘ سلیم آغا قزلباش نے پاکستان میں اَور شمس الرحمن فاروقی‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ شمیم حنفی‘ ستیہ پال آنند اَور ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے بھارت میں عملی تنقید کے حوالے سے عمدہ کام کیا ہے۔

آپ کے گھر کا ماحول ادبی تھا؟

میرے والد تصوف کے سکالر تھے۔ اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انھیں فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ پھر میرا ایک ہم عمر بھانجا شمس آغا افسانے لکھتا تھا جو ’اَدبی دنیا‘ میں چھپتے تھے۔ وہ دو برس ہمارے ہاں گاؤں میں رہا اور اس دوران میں اُس نے متعدد شاہکار افسانے لکھے جن کی پورے بر صغیر میں دھوم مچ گئی مگر وہ تئیس برس کی عمر میں اچانک غائب ہو گیا۔ اس کے بعد آج تک اُس کا کچھ پتا نہیں۔

آپ کو ادب تخلیق کرنے کی تحریک کہاں سے ملی؟

جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالبعلم تھا‘ مجھے انگریزی نظمیں پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ بعض نظمیں مجھے اتنی اچھی لگیں کہ زبانی یاد ہوگئیں۔ اس زمانے میں مجھے بھی نظم لکھنے کا شوق ہوا تو میں نے انگریزی اور اُردو میں نظمیں لکھنا شروع کیں مگر انھیں اشاعت کے لیے کہیں نہ بھجوایا۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد جب میں شمس آغا سے ملا تو مجھے اُردو کے بہت سے افسانے پڑھنے کا موقع ملا۔ پھر مولانا صلاح الدین احمد سے میری ملاقات ہوئی‘ اُنھوں نے مجھے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر کی طرف بھی راغب کیا اَور یوں میں پوری طرح اَدب کی طرف آگیا۔

فکر وفن کے حوالے سے کس شاعر نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟

جدید اُردو ادب کے حوالے سے میں فیض‘ میراجی‘ راشد اور مجید امجد سے متاثر ہوا۔ مجید امجد نے مجھے نسبتاً زیادہ متاثر کیا۔

منیر نیازی کی نظم نگاری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

منیر نیازی مجید امجد کے شعری مسلک سے جڑا ہوا شاعر تھا۔ اُس کی ابتدائی نظموں میں دس پندرہ تو ایسی ہیں جن میں پُر اسراریت، رومانویت اور تازہ تخلیقی اسلوب نے انھیں اعلیٰ شعری مقام بخشا۔ لیکن اس کے بعد اُن کے ہاں گروتھ (growth) نہیں ہوئی ۔ گروتھ اُس صورت میں ہوتی ہے جب شاعر کے مطالعے کا مدار وسعت پذیر ہو۔ مطالعے کا مسئلہ بہت نازک ہے۔ اگر مطالعہ تخلیق پر حاوی ہو جائے تو تخلیقیت دب جاتی ہے لیکن شاعر مطالعے کے لطیف اثرات کو خود میں جذب کرلے (جس اس کا وژن وسیع ہو) تو اعلیٰ درجے کی تخلیق کاری کا ایک طویل سلسلہ وجود میں آجاتا ہے۔ بد قسمتی سے منیر نیازی کے ہاں ایسا نہیں ہوسکا۔ پھر بھی جدید اُردو نظم کے اہم شاعروں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔

احمد فراز کی شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

احمد فراز نے غزل بھی لکھی ہے اور نظم بھی۔ اُن کی غزل کے بعض اشعار بہت مقبول ہوئے ہیں (بالخصوص نوجوان اُن کے کلام سے خاصے متاثر ہیں)۔ جدید نظم میں اُن کی کارکردگی قابل ذکر نہیں۔

آپ کا کہنا ہے کہ برگد کا پیڑ، آپ کے لیے ایک بزرگ کی حیثیت رکھتا ہے اور پیپل ایک درخت نہیں پورا معاشرہ ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

برگد کے پیڑ کی ایک بھاری بھر کم شخصیت ہوتی ہے اور وہ اپنے حلیے کے باعث ایک برگزیدہ ہستی نظر آتا ہے اس لیے میں نے اُسے بزرگ کہا۔ اصل وجہ شاید یہ ہے کہ میرے والد آخری عمر میں برگد کے نیچے چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتے اور ارد گرد کے دیہات سے لوگ اُن کی باتیں سننے کے لیے جمع ہوجاتے تھے ۔ وہ تصوف کے مسائل پر اُن سے باتیں کرتے تھے۔ سو میرے لیے آہستہ آہستہ برگد اور والد ایک ہی ہستی بن گئے۔

وزیرکوٹ: ڈاکٹر وزیر آغا کے گھر کے آنگن میں موجود برگد کا درخت

پیپل کی بات ذرا مختلف ہے۔ وہ مجھے ایک جوگی یا درویش کی صورت میں نظر آتا ہے اور جوگی سے بڑا معاشرے کا ناظر اَور کون ہوسکتا ہے۔ پیپل پر میں نے ایک نظم کہی تھی جس کا آخری بند ہے:

پیپل کیا ہے جوگی کا بے دَر سا اِک اَستھان

جھونکے، پتے، پنچھی، انساں سب اس مہمان

کھاٹ پہ لیٹا سوچ رہا ہوں میں مورکھ نادان

آپ کے بچوں میں سے کوئی ادب کی طرف آیا؟

میری ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا۔ بیٹی کا نام وقار النسا ہے۔ شروع شروع میں اس نے چند مضامین لکھے پھر اس کی شادی ہوگئی اور مضامین لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بیٹے کا نام سلیم آغا ہے۔ وہ پوری طرح اَدب کی طرف راغب رہا ہے۔ اب تک اس کی کم و بیش نو (9) کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ تنقید، افسانہ، اِنشائیہ اور نثری نظم (ان سب کے حوالے سے) اُس کی کتابیں چھپی ہیں۔ اس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ وہ پچھلے دس بارہ سال سے کھیتی باڑی کر رہا ہے اور گاؤں میں رہتا ہے۔ اِدھر مَیں بوجوہ لاہور میں مقیم ہوں۔ ٹیلی فون پر اس سے ہر روز باتیں ہوتی ہیں۔ وہ زراعت کے ہمہ وقتی کام سے کچھ وقت نکال کر لکھتا پڑھتا بھی رہتا ہے۔

آپ نے ایک طویل ادبی زندگی گزاری‘ کیا ہمارے ہاں ادب کے بل پر زندگی گزاری جاسکتی ہے؟

ہمارے ہاں بیشتر اُدبا تو ملازمت پیشہ ہیں یا پھر میڈیا کی کمائی پر زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ملازمت پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد اُن اُدبا کی ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں۔ کچھ لوگ تجارت یا زراعت سے بھی وابستہ ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ البتہ کچھ ایسے ضرور ہیں جنھوں نے ادب سے براہ راست دولت کمائی ہے (بالخصوص ایسے ادیب جنھوں نے میڈیا کا سہارا لیا ہے) اور جنھیں کتابوں کی فروخت سے بھی بہت کچھ ملا ہے۔

وزیرکوٹ: آغا صاحب کی پہلی برسی۔ آصف بشیر چودھری اور محمد فیاض راجا کے ہمراہ۔

پاکستان ایسے ملک میں جہاں اَدب سے براہِ راست کچھ کمانا بے حد مشکل ہے ایسے اُدبا کا دم غنیمت ہے جو ملازمت کے ساتھ ساتھ اَدب کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اُدبا اَدب کو ذریعہ معاش بنانے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ وہاں اوّل درجے کی کتب پر بھاری انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی رائلٹی ہے جو اداروں کی طرف سے اُدبا کو ملتی ہے۔

(مضمون کا عنوان: ’آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا‘ پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی کتاب کا ٹائٹل ہے)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp