پراڈکٹ کی خریداری اور بینکنگ لین دین میں دھوکا دہی کا شکار افراد کو پہنچنے والے مالی نقصان کے ازالے کے لیے کنزیومر پروٹیکشن کورٹ کی بنیاد رکھی گئی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر صارفین نقصان اٹھاتے رہے مگر متعلقہ عدالت سے رجوع نہیں کیا، نتیجتاً یہ صورتحال خود باعث تشویش رہی۔
صارف عدالت میں عوام کی عدام دلچسپی کیوں؟
صارف عدالتوں میں عوام کے نہ آنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے پہلی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ شہری کورٹ فیس اور وکیل کی فیس ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، کیوں کہ زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ ضائع ہونے والی رقم کورٹ اور وکیل کی فیس سے کم ہوتی ہے، اس لیے صارف عدالت کا رُخ نہیں کرتے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ صارفین کو کنزیومر کورٹ کا علم ہی نہیں کہ اس طرح کی بھی کوئی عدالت ہے جو صارف کو سہولت فراہم کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔
عدالت کا اہم قدم جس میں آپ سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی
کراچی کی مقامی عدالتیں یا سٹی کورٹس میں صارفین کی آگاہی کے لیے اہم قدم اٹھا ہے، اب ہر صارف بنا کورٹ فیس اور وکیل کے کنزیومر پروٹیکشن عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی کی ضلعی عدالتوں کے باہر آگاہی کے لیے بینرز آویزاں کردیے گئے ہیں۔
کون سے شہری یہ سہولت مفت حاصل کرسکتے ہیں؟
کنزیومر کورٹ یا صارف عدالت سے ہرصارف کسی بھی دکاندار سے اشیا/مصنوعات خریداری میں نقصان کی صورت میں رجوع کرسکتا ہے، کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے کی خدمات حاصل کرنے کے دوران شکایت یا نقصان کی صورت میں بھی کنزیومر پروٹیکشن کورٹ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
عدالت کیا احکامات دے سکتی ہے؟
صارف کی سہولت کے لیے عدالتوں میں لگائے گئے بینرز کے مطابق کسی بھی صارف کا کیس ثابت ہونے پر عدالتی احکامات پر ناقص مصنوعات کو نئی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ عدالتی احکامات پر مصنوعات کی قیمت بھی واپس کی جاسکتی ہے، عدالتی احکامات پر درخواست گزار کو مناسب معاوضہ بھی مل سکتا ہے۔
عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟
عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 سال تک قید اور لاکھوں روپے تک کے جرمانے کی سزا ہوگی۔
قانونی ماہر لیاقت گبول ایڈووکیٹ کے مطابق صارف عدالتوں میں صارفین کا رش تو نہیں، لیکن اب تک جتنے بھی کیس آچکے ہیں ان میں صارفین کو ریلیف مل چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ فیصلوں میں عدالت نے کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد کرکے صارف کو کمپنسیٹ (ازالہ) کیا ہے۔
لیاقت گبول کے مطابق یہ عدالت کا اچھا قدم ہے کیوں کہ کسی صارف کی خریدی گئی پراڈکٹ ہزاروں روپے میں ہے اور اسکی کورٹ اور وکیل کی فیس ملا کر لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے صارف عدالت سے دور رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ ان عدالتوں میں کیس روایتی کیسوں سے جلد حل ہوتا ہے۔