درست سمت کی تلاش

پیر 20 مئی 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے عوام کو شاید ہیجانی کیفیت میں رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔ جس کی عکاسی گلی محلے اور سڑکوں پر لوگوں کے رویوں سے ہوتی ہے۔ سگنل ابھی سرخ سے سبز ہوتا ہی ہے کہ پیچھے سے ہارن کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک شخص الٹی طرف سے آرہا تھا جب اس سے استفسار کیاکہ بھائی آپ غلط سمت سے آرہے ہیں تو بولا، ’حکومت اور طاقتور لوگوں کی سمت کون سی درست ہے‘۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ملک جنگوں سے نکل کر امن و استحکام کی طرف گامزن ہوتے ہیں، مگر یہاں ایک دشمن سے جنگ کے بعد ہم ملک کے اندر نئی جنگ شروع کردیتے ہیں۔ مشرف دور میں افغانستان کی جنگ سے نکلے ہی تھے کہ ہم نے سیاسی جنگوں کا اعلان کردیا۔ ہر روز ٹی وی پر چیخ چیخ کر بتایا جارہا تھا کہ زرداری حکومت چند روز کی مہمان ہے۔ پھر ہماری روح کو سکون تب ملا جب عدلیہ نے ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کے ’سنگین‘ جرم میں سزا دے کر اسے گھر بھیج دیا۔

زرداری حکومت نے نئے وزیراعظم کے ساتھ اپنی مدت پوری کرکے تاریخ رقم کردی۔ مگر ہمارے دل کو چین کہاں۔ 2013 کے الیکشن کے بعد نئی حکومت کے ایک سال بعد ہی عمران خان اور طاہرالقادری کو اسلام آباد میں دھرنے پر بٹھا دیا۔ ایسی بے یقینی پیدا کی کہ بس یہ حکومت آج گئی کہ کل۔ کسی نے شعر لکھ کر واٹس ایپ کردیا، ’جی کا جانا ٹھہر گیا، صبح گیا یا شام گیا‘۔ یعنی اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کا استعفیٰ آنے والا ہے۔ آخرکار نوازشریف کو نااہل کرکے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور منصب شاہد خاقان عباسی کے سپرد ہوگیا۔ اور پھر اگلی حکومت میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔

ہمیں سکون سے نفرت ہوتی جارہی ہے۔ اس حکومت کو اقتدار سنبھالے چند ماہ ہوئے ہیں کہ اپوزیشن سمیت بعض ایسے افراد جو طاقتور حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے۔ ایک طرف ہم معیشت کی بحالی چاہتے ہیں جو سیاسی استحکام سے مشروط ہے اور دوسری طرف اپوزیشن رہنما عمران خان اور ان کی جماعت کے بیشتر رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام پھیلانے والوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔

ایک محاذ ختم ہوتا ہے تو دوسرا محاذ ہم خود کھول لیتے ہیں۔ ججوں نے شکایت کی کہ ادارے کے لوگ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ہم نے دباؤ ڈالنے والوں کو منع کرنے کے بجائے ججوں کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک افلاطون لا کر کھڑا کردیا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم یہ شکایت کرو۔ تہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔

عدلیہ اور مقتدرہ کا ٹکراؤ جاری ہے، حکومتی حلقے خاموش نظر آرہے ہیں۔ مداخلت کے الزامات نے ایک بھونچال کھڑا کردیا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت بھی شش و پنج میں ہے کہ وہ عدلیہ میں مداخلت کا دفاع کیسے کرے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اس عجیب صورتحال سے کنارہ کشی کررہے ہیں۔ سب منتظر ہیں کہ یہ معاملہ کب ختم ہوگا اور کیا اس کا کوئی پائیدار حل بھی سامنے آسکے گا یا نہیں۔

اس وقت ایک دو افراد ایسے ہیں جن پر سب کی نظر ہوتی ہے کہ وہ جو بھی بات کریں گے اس سے اندازہ ہو گا کہ ملک کے طاقتور حلقے کیا سوچ رہے ہیں۔ ایک کے بارے میں تو رانا ثنااللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ شکر کریں انہوں نے وزارت عظمیٰ نہیں مانگ لی وہ تو وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ دوسرے صاحب ہر موقع پر اپنے کرم نوازوں کی طرفداری کرتے نظر آتے ہیں۔ اور میڈیا کے پسندیدہ مہمان بن چکے ہیں تاکہ پروگرام کی ریٹنگ بہتر آسکے۔

اگرچہ سب جانتے ہیں کہ یہ حکومت مسلم لیگ نواز کو کیسے ملی اور مقاصد صرف یہ تھے کہ معیشت پر سب سے زیادہ فوکس کیا جائے اور ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے مگر سیاسی حالات معاشی اعشاریوں کی بہتری کے باوجود درست سمت میں جاتے دکھائی نہیں دیتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp