ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ہمراہ ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہلاکت کے بعد ایک اسرائیلی اہلکار کی جانب سے اس جان لیوا حادثے میں اسرائیل کے کسی بھی کردار کو خارج از امکان قرار دیا ہے، تاہم اسرائیل نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے ابھی کوئی رسمی تعزیتی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
مزید پڑھیں
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حادثے میں اسرائیل کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، جہاں ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دنیا بھر سے ایرانی صدر کی ناگہانی وفات پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل نے ابھی تک باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، جو ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سخت حامی ہیں، جنہوں نے 1988 میں ہزاروں افراد کو بڑے پیمانے پر پھانسی دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور بعد میں ایران کی یورینیم کو ہتھیاروں کے درجے تک کی افزودگی کی کوششوں کے دوران رہنمائی کی، حال ہی میں ان کی قیادت میں اسرائیل کیخلاف ڈرون اور میزائل حملے بھی کیے گئے تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر حکام کے ساتھ صدر ابراہیم رئیسی کی غیر متوقع موت، ، اتوار کے روز شمال مغربی ایران میں ایک ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہوئی ہے، یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران داخلی اختلافات اور اپنے عالمی تعلقات کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔
ایران اسرائیل تنازعہ
سپریم لیڈر کے طور پر آیت اللہ علی خامنہ ای خارجہ پالیسی پر حتمی رائے رکھتے ہیں، لیکن صدر رئیسی نے ایک ایسی ریاست کی صدارت کی جس نے اپنے مخالفوں، خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کے خلاف تصادم کا راستہ جاری رکھا۔
7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے، آیت اللہ خامنہ ای اور صدر رئیسی کی قیادت میں ایران نے اپنے علاقائی ساتھیوں کو اسرائیل اور امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال کرنے کے درمیان ایک نازک توازن برقرار رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔
یہ توازن لمحہ بہ لمحہ اس وقت درہم برہم ہو گیا تھا جب دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملے کے جواب میں اپریل میں اسلامی جمہوریہ نے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے براہ راست حملہ کیا، جسے اسرائیل، امریکا برطانیہ، اردن اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے، تقریباً تمام آنے حملہ آور پروجیکٹائل کو روکنے میں کامیاب رہا۔
جوابی کارروائی میں اسرائیل نے مبینہ طور پر ایرانی شہر اصفہان میں فضائی دفاعی ریڈار سسٹم پر حملہ کیا، ہڑتال کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اسرائیل کی جانب سے ایران کو واضح طور پر پیغام پہنچایا گیا، دونوں ممالک نے برسوں خفیہ کارروائیوں اور سائبر حملوں کی جنگ لڑی ہے، لیکن اپریل میں فائرنگ کا تبادلہ ان کا پہلا براہ راست فوجی تصادم تھا۔
صدر رئیسی کی میراث
ابتدائی طور پر ایک دیندار پس منظر کے ساتھ صدر رئیسی کا رویہ اکثر سیاستدان کے بجائے ایک مبلغ جیسا ہوتا تھا، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سامنے قرآن کو بوسہ دینے جیسے ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔
2017 کے صدارتی انتخابات میں نسبتاً اعتدال پسند حسن روحانی کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد، صدر ابراہیم رئیسی بالآخر چار سال بعد ایک ایسے انتخاب میں اقتدار پر فائز ہوئے جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے اہم اپوزیشن امیدواروں کو ختم کرنے کے لیے کرائے گئے تھے۔
صدر ابراہیم رئیسی کا عروج عالمی طاقتوں کے ساتھ صدر حسن روحانی کے تاریخی جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد ہوا، جو کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا شاخسانہ تھا، اس کارروائی سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان شدید کشیدگی کے دور کا آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔
ایرانی صدر کی حادثاتی موت پر عالمی رد عمل
اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے بھی ایرانی صدر کی حادثاتی موت پر باضابطہ تبصرہ سامنے نہیں آیاہے، تاہم یورپی کونسل کے صدر، چارلس مشیل نے اس جان لیوا حادثے میں ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت دیگر ایرانی اہلکاروں کی موت پر یوپی یونین کی جانب سے دلی تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق صدر شی جن پنگ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی المناک موت کو ایرانی عوام کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی موت سے چینی عوام ایک اچھے دوست سے محروم ہو گئے ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ پاکستان کو ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ایک تاریخی دورے پر صدر رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی میزبانی کی خوشی حاصل ہوئی تھی۔
’وہ پاکستان کے اچھے دوست تھے، پاکستان میں یوم سوگ منایا جائے گا اور صدر رئیسی اور ان کے ساتھیوں کے احترام اور برادر ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر پرچم سرنگوں رہے گا۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی ایرانی صدر اور وزیر خارجہ کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دونوں مرحومین کو ’قابل اعتماد دوست‘ قرار دیا، ان کے مطابق باہمی طور پر فائدہ مند روس ایران تعاون کو مضبوط بنانے اور بھروسہ مند شراکت داری میں ان کا کردار مثالی رہا۔
’ہم متاثرین کے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ ساتھ ایران کے تمام دوست لوگوں کے ساتھ مخلصانہ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، اس دکھ کی گھڑی میں ہمارے خیالات اور دل آپ کے ساتھ ہیں۔‘