پاکستان میں اس وقت مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور عوام کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی اور ڈالر کی اڑان نے پاکستان کے معاشی حالات کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 20 مارچ کو انٹر بینک میں ڈالر کی قیمیت 284 روپے 3 پیسے تھی جبکہ 17 مارچ کو ڈالر 281 روپے 71 پیسے پر بند ہوا تھا۔
پاکستان کا انحصار آئی ایم ایف پر ہے
آئی ایم ایف کی سخت شرائط بھی ڈالر کی قیمیت میں اضافے کی وجہ دیکھی جا رہی ہے کیونکہ اس معاشی بحران میں پاکستان کا انحصار آئی ایم ایف پر ہے۔ مہنگائی کی صورتحال کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یہ اعداد و شمار کافی ہونے چاہئیں کہ 2022ء کی نسبت اس سال مہنگائی کی شرح میں تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سہیل مشتاق ایک مارکیٹنگ کمپنی میں ایریا منیجر ہیں جنہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے اخراجات میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اب ان کی ماہانہ آمدن کم پڑتی جارہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘6 سے 8 ماہ پہلے حالات قابو میں تھے مگر بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے مالی حالات بہت متاثر ہورہے ہیں۔ گھر میں تقریباً 8 سے 10 لوگ ہیں اور اخراجات بھی اسی حساب سے ہیں’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘بچوں کے جو پیمپر 1500 روپے میں مل جایا کرتے تھے اس کی قیمت اب تقریباً 2300 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح کھانا پکانے کا تیل جو میں نے ایک مہینہ پہلے 2575 روپے کا خریدا تھا اس کی قیمیت اس بار 600 روپے کے اضافے کے ساتھ 3200 روپے ہوگئی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمیتوں سمیت ہر چیز کی قیمیت میں اضافے نے گزارا مشکل بنا دیا ہے’۔
سہیل کہتے ہیں ان کے اخراجات ان کی ماہانہ تنخواہ سے تقریباً 20 سے 30 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔
مہینے کے آخری دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے
24 سالہ زیمل، اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں اور گھر کی واحد کفیل ہیں۔ زیمل کے 7 بہن بھائی ہیں جن کی تعلیم سمیت وہ گھر کے باقی اخراجات بھی دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘مہینے کے آخری دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہر چیز کی قمیت میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے جس تنخواہ میں پہلے پورا مہینہ گزار لیا جاتا تھا اب وہی تنخواہ آدھے مہینے میں ختم ہوجاتی ہے’۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جتنے پیسوں میں کھانا پکانے والا گھی مہینے بھر کے لیے آجاتا تھا اب وہ زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 دن میں ختم ہوجاتا ہے۔
قیمتوں میں مزید اضافہ مایوس کن ہے
ایک سوال کے جواب میں زیمل نے بتایا کہ ‘رمضان کے مہینے کے لیے موجودہ تنخواہ ناکافی ہے کیونکہ جو 10 کلو آٹے کا تھیلا کل تک 650 روپے کا تھا اس کی قیمت میں آج دوگنا اضافہ ہوا ہے اور اب تقریباً اس 10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1160 روپے ہوگئی ہے۔ ہر مہینے مہنگائی میں تو اضافہ ہورہا ہے مگر تنخواہ اتنی ہی ہے اور رمضان کے باعث اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ مایوس کن ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت درآمدات کے بجائے برآمدات پر توجہ دے۔
روپے کو ڈالر کے مقابلے میں بے قدری کا سامنا رہے گا
ماہرِ معیشت فرحان بخاری نے بتایا کہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں بے قدری کا سامنا رہے گا اور اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان پر آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پڑنے والا دباؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی حالات اتنے نازک ہیں کہ ہماری معیشت کسی بھی مداخلت کی اجازت نہیں دیتی۔
انہوں نے وی نیوز کے ایک سوال پر کہا کہ ‘ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروی ہے کہ پاکستان برآمدات میں اضافے کے لیے کوشش کرے اور اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر غیر ضروری اشیا کی درآمدات کو کم کرے خاص طور پر زراعت پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے’۔
خوراک میں خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے
فرحان بخاری نے مزید کہا کہ ‘پاکستان کو خوراک میں خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اشیائے خور و نوش کی درآمد کم سے کم ہوسکے جبکہ آئی ٹی کی درآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے تاکہ ہمارے اخراجات میں کمی ہو اور آمدن میں اضافہ ہوسکے۔
معاشی ماہر خرم دستگیر نے بتایا کہ ‘پاکستان کے پاس ڈالرز کم ہیں اور پاکستان کے بیرونی قرضے زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے ڈیفالٹ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت کو ڈالر کی سپلائی میں اضافے سے بہتر کیا جاسکتا ہے اور سپلائی برآمدات اور ترسیل زر سے اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہوتی ہے یا پھر مزید قرضے لیے جاتے ہیں’۔
منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو قابو کیا جائے
انہوں نے کہا کہ ‘ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ہماری برآمدات بہتر ہوں گی اور یہاں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور طویل عرصے کے لیے قرضے ملیں گے تو ڈالر کی سپلائی میں بہتری ہوگی اور ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں متوازن ہوگی’۔
خرم دستگیر نے وی نیوز کے ایک سوال پر کہا کہ مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو قابو کیا جائے تاکہ معاشی بحران سے بچا جا سکے۔