کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شخص ادیب بھی ہو اور سیاستدان بھی، کہ سیاست کے خاردار راستوں سے شعر وادب کے مرغزاروں کا کیا تعلق؟ مگر سعودی ادیب و شاعر اور سیاستدان ڈاکٹر غازی بن عبد الرحمن القصیبی ضدین کی جمع کا حسین امتزاج تھے۔
ڈاکٹر غازی القصیبی سنہ 1359 ہجری کو سعودی عرب کے شہر الاحساء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، پھر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اپنی تعلیم مکمل کی، اس کےبعد امریکا پڑھنے گئے جہاں سے انہوں نے انٹرنیشنل تعلقات میں پی ایچ ڈی کی۔
پیشہ ورانہ زندگی
ڈاکٹر غازی نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اہم مناصب سنبھالے۔ انہوں نے 1965 / 1385ھ میں کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض کے کامرس کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے وزارت دفاع و ہوا بازی، وزارت خزانہ، اور پبلک ایڈمنسٹریشن انسٹیٹیوٹ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1971 / 1391ھ میں، وہ کنگ سعود یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریٹو سائنسز کالج کے ڈین بنے۔ 1973 / 1393ھ میں، انہیں جنرل ریلویز کارپوریشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے 1976 / 1396ھ میں انہیں وزیر صنعت و بجلی مقرر کیا گیا۔ 1982 / 1402ھ میں انہوں نے وزیر صحت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 1984 / 1404ھ سے 1992 / 1412ھ تک وہ بالترتیب بحرین اور برطانیہ میں سعودی سفیر رہے۔ 2003 / 1423ھ میں، وہ وزیر پانی و بجلی بنے اور آخرکار 2005 / 1425ھ میں وزیر محنت کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔
ادبی خدمات
شاعر، ناول نگار، اور مفکر غازی القصیبی کی ادبی خدمات میں متعدد شعری مجموعے شامل ہیں، جن میں ’صوت من الخليج‘ (خلیج کی آواز)، ’الأشج‘ (اشج)، ’اللون عن الأوراد‘ ، ’اشعار من جزائر اللؤلؤ‘ (موتیوں کے جزیروں سے شاعری)، ’سحيم‘ (سحیم)، اور ’للشهداء‘ (شہداء کے لیے) شامل ہیں۔
ان کے ناولوں میں ’شقة الحرية‘ (آزادی کا اپارٹمنٹ)، ’العصفورية‘ (عصفوریہ)، ’سبعة‘ (سات)، ’هما‘ (وہ دونوں)، ’سعادة السفير‘ (عالی جناب سفیر)، ’دنسكو‘ (دنسکو)، ’سلمى‘ (سلمیٰ)، ’ابو شلاخ البرمائي‘ (ابو شلاخ برمائی)، اور ’الجنيه‘ (جن) شامل ہیں۔
فکری میدان میں ان کی تصانیف میں ’التنمية‘ (ترقی)، ’الأسئلة الكبرى‘ (بڑے سوالات)، ’الغزو الثقافي‘ (ثقافتی یلغار)، ’امريكا والسعودية‘ (امریکا اور سعودی عرب)، ’ثورة في السنة النبوية‘ (سنت نبویؐ میں انقلاب)، اور ان کی انتظامی سوانح حیات ’حياة في الإدارة‘ (انتظامی زندگی) شامل ہیں، جو بہت زیادہ فروخت ہوئی۔
اسی طرح، ’الوزير المرافق‘ (ہمراہ وزیر) میں انہوں نے اپنے وزارت کے تجربات کو سرکاری وفود کے ساتھ دوروں اور مہمانوں کے ساتھ رہنے کے تجربات کو بیان کیا۔ غازی القصیبی کی بیشتر تصانیف نے اشاعت کے وقت بڑی ہلچل مچائی، اور ان میں سے کئی کتابوں پر پابندی بھی لگی۔
ناولوں کے میدان میں ماہرین متفق ہیں کہ ’شقة الحرية‘ (آزادی کا اپارٹمنٹ) اور ’العصفورية‘ (عصفوریہ) القصیبی کی سب سے اہم، بہترین، اور مشہور تخلیقات ہیں، جبکہ ان کے شعری مجموعوں میں ’معركة بلا راية‘ (بے پرچم جنگ) ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ دیگر تصانیف میں ’حياة في الإدارة‘ (انتظامی زندگی) ایک ایسی کتاب ہے جو بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ انہوں نے تقریباً عربی اور انگلش میں 93 کتابیں لکھیں۔
دلچسپ واقعہ
غازی وزیر کی سوانح عمری میں غازی ادیب کی وجہ سے پیدا ہونے والے دلچسپ واقعات شامل ہیں۔ قصیبی بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بجلی اور صنعت کے وزیر تھے، تو ایک دن ریاض کے ایک محلے میں بجلی کی بندش ہو گئی۔ قصیبی ہر بار بجلی کی بندش پر کمپنی کے دفتر جا کر سنٹرل کے ملازمین کے ساتھ مل کر فون کالز کا جواب دیتے تھے۔ اس دن بھی، جب وہ کمپنی کے سنٹرل پر کالز وصول کر رہے تھے، ایک غصے میں بھرے شہری نے ان سے بات کی اور کہا: ’اپنے شاعر وزیر سے کہو کہ اگر وہ اپنی شاعری چھوڑ کر اپنے کام پر دھیان دے تو ریاض میں بجلی کی بندش نہ ہو‘۔غازی کہتے ہیں، میں نے سادگی سے کہا: شکریہ۔۔ پیغام پہنچ گیا! وہ بولا: کیا مطلب؟ میں نے کہا: میں وزیر ہوں! وہ بولا: قسم اٹھاؤ! میں نے کہا: اللہ کی قسم۔ پھر دوسری طرف ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی اور فون بند ہو گیا۔
غازی القصیبی کے چند مقولہ جات
’انسانی فطرت کبھی کبھار مانوس قوانین سے باہر نکل آتی ہے‘۔
’وہ آنکھ جسے محبت نابینا کردے، صرف کمال ہی دیکھتی ہے‘۔
’جب تک فتنہ کا سامنا نہ کرے، کسی انسان کو یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں کہ وہ پاکدامن ہے‘۔
’محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کبھی معذرت کی ضرورت نہیں ہوتی‘۔
’میرے ہزار مسائل ہیں، اور میری سب مشکلات زندگی سے منسلک ہیں۔ میرے مسائل کو قانون حل نہیں کر سکتا، انہیں صرف موت ہی حل کر سکتی ہے‘۔