انقلاب زندہ باد کے نعرے کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر جھول جانے والے بھگت سنگھ کون تھے؟

ہفتہ 23 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ تحریر ابتدائی طور پر 23 مارچ 2023 کو لگائی گئی تھی۔


 بھگت سنگھ آج بھی زندہ کیوں ہے؟

برصغیر پر انگریز راج کے دوران 23 مارچ 1931ء کو لاہور سینٹرل جیل میں 24 سال کی عمر میں  پھانسی کی سزا پانے والے جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ27ستمبر1907ء کوفیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں 105 چک بنگے میں  پیدا ہوئے تھے۔

بھگت سنگھ کی پھانسی ایک ایسا واقعہ ثابت ہوئی جس نے انگریز راج کی بنیادیں ہلانے میں اہم کردار ادا کیا اور برصغیر پاک وہند میں انہیں آج بھی ایک اہم انقلابی رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ تاریخ کے لیکچرار ڈاکٹر مظہر عباس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کے لیے 24 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ لیکن لوگوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے، ڈر کی وجہ سے، عوامی دباؤ کی وجہ سے انگریز وں نے فیصلہ کیا کہ انہیں 23 مارچ کی شام کو ساڑھے سات بجے پھانسی دے دی جائے اور پھر  ایسا ہی کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بھگت سنگھ کی پھانسی  کے وقت انگریز حکومت اور ان کے بعد اقتدار پر قابض مقامی اشرافیہ کی کوشش یہی رہی ہے کہ جنگ آزادی کے اس ہیرو کو فراموش کر دیا جائے، لیکن یہ کوشش نہ ماضی میں کامیاب ہو سکی اور نہ ہی آج ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’بھگت سنگھ کا خاندان ان کی پیدائش سے بھی پہلے عوامی حقوق کے حصول کی جدوجہد کا حصہ رہا تھا‘۔

’اگر ہم ان کے چچا اجیت سنگھ کو دیکھیں تو انہوں نے ’پگڑی سنبھال جٹا‘ تحریک چلائی  جو کہ کسانوں کی بہت بڑی تحریک تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کا جنم بھی اسی سال 1907ء میں ہو ا جب یہاں پگڑی سنبھال جٹا تحریک چل رہی تھی‘۔

’اسی طرح  ان کے والد کشن سنگھ کو ’غدر موومنٹ‘کے اہم رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’ان کے خاندان کا ایک پس منظر ہے۔ آپ دیکھیں کہ چھوٹی سی عمر  میں انہوں نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو شاید ہم اس عمر میں سوچ بھی نہیں سکتے‘۔

بھگت سنگھ کے گاؤں میں ان کی جائے پیدائش اور اسکول آج بھی اسی حالت میں موجود ہے اور انہیں ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

یہ حویلی 1947ء میں بھار ت سے ہجرت کرکے آنے والے فضل قادر ورک کو الاٹ ہوئی تھی،  جس میں 1890ء کے بنے ہوئے دو کمرے آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں جیسے بھگت سنگھ کے والدین نے بنائے تھے۔

اب اس حویلی کی دیکھ بھال کا فریضہ فضل قادر ورک کے پوتے ثاقب اقبال ورک ادا کر رہے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھگت سنگھ کی حویلی تاریخی اہمیت  کی حامل ہے، یہاں پر بھگت سنگھ کا جنم ہوا ہے، یہاں پر وہ رہے، یہاں پر ان کا بچپن گزرا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بھگت سنگھ کی حویلی کو محفوظ رکھنے کا کریڈٹ ورک فیملی کو جاتا ہے۔ جب یہ حویلی ان کو الاٹ ہوئی تو ان کو پتا تھا۔ وہ پڑھے لکھے باشعور لوگ تھے ان کو پتا تھا کہ تاریخی حویلی ہے۔ اگر ان کے اندر اتنا شعور نہ ہوتا تو شاید وہ اس حویلی کو محفوظ نہ رکھتے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’2014ء میں اس وقت کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر نور الامین مینگل نے لائل پور ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے تحت فیصل آباد کی تقریباً چالیس عمارتیں منتخب کی تھیں کہ انہیں ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جائے گا۔ ان کو بحال کیا جائے گا اور ان کے بارے میں آگاہی کو فروغ دیا جائے گا‘۔

مظہر عباس کے مطابق ’اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے صرف اسے محفوظ نہیں کرنا ہے بلکہ جب بھی آپ کے پاس کوئی اس طرح کا ثقافتی ورثہ ہوتا ہے جسے آپ محفوظ کرتے ہیں تو اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ اس کو آپ نے آگے مقبول کیسے بنانا ہے؟‘

’عوام کو جوڑنا کیسے ہے؟ لوگوں کو لے کر کیسے آنا ہے؟ لوگوں کو بتانا کیسے ہے کہ یہ عمارت اتنی اہم ہے اور اس کی اہمیت کی وجہ سے آپ نے یہاں پر آنا ہے؟  اس کو وزٹ کرنا ہے یا اس کے ساتھ ایسوسی ایٹ ہونا ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بے شک انڈیا اور پاکستان مذہبی بنیادوں پر الگ ہوئے ہیں لیکن اس میں سب سے اہم چیز یہ  ہے کہ بھگت سنگھ نے اپنی ذات کی بجائے اجتماعی مفاد کے لیے جان قربان کی اور یہی بات انہیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے‘۔

’انقلاب زندہ باد کا نعرہ نوجوان نسل کو آج بھی سب سے زیادہ فیسی نیٹ کرتا ہےکیونکہ ہم جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، سیاسی بحران، معاشی بحران ، سماجی بحران، مطلب ہر طرف تنزلی ہے پھر ہمیں بھگت سنگھ فیسی نیٹ کرتا ہےکہ شاید یہ وہ ایک بندہ ہے جس کی فلاسفی، آئیڈیالوجی اور نظریہ ہمیں اس صورتحال سے نکال سکتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی بھگت سنگھ کو مکمل طور پر نہیں اپنایا گیا ہے۔ ماسوائے پنجاب کے یا  کچھ سوشلسٹ ریاستوں میں یا صوبے ہیں جیسے کیرالہ وغیرہ‘۔

’ظاہر ہے وہاں پر اس آئیڈیالوجی اور  فلاسفی کا اثر زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نصابی کتب میں نہیں پڑھایا جاتا، ہماری جو تاریخ لکھی جاتی ہے اس میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بھگت سنگھ  نے کسی خاص مذہب یا فرقے  کی جنگ نہیں لڑی بلکہ وہ اس خطے کے پسے ہوئے، پسماندہ طبقات کو بلا تفریق مذہب انگریزوں کے جبر سے نجات دلانا چاہتے تھے اور یہی سوچ انہیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp