قائد اعظم پر نادر معلومات جمع کرنے والے محقق جنہیں حکومت نے بے گھر کیا

ہفتہ 25 مئی 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے برصغیر کو ادب، سائنس، تحقیق اور سیاست کے میدانوں کے کئی شہسوار دیے۔ اس ادارے سے وابستہ کتنے ہی افراد ہیں جنہیں تحریک پاکستان کا بنیاد گزار قرار دیا جاتا ہے۔

ایک اور بات جو علی گڑھ کو منفرد بناتی ہے وہ اس سے وابستہ رہنے والوں کا اس سے والہانہ عشق ہے۔ اسرار الحق مجاز کی نظم ’نذرِ علی گڑھ‘ میں اس سرمستی کی ایک جھلک نظر آتی ہے:

جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے

اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے

علی گڑھ سے عشق کا ایسا جذبہ ممتاز نثر نگار مختار مسعود کی تحریروں میں بھی جھلکتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عشق مختار مسعود کے رگ وپے میں سمایا ہوا تھا۔وہ اپنی یادوں میں بسے علی گڑھ کو اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ جاوید بنا کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

علی گڑھ نے کیسے کیسے اہلِ علم پیدا کیے۔ہر ایک نرالی شان اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ البتہ مختار مسعودنے’حرفِ شوق‘ میں علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنے زمانے کے نامور طالب علموں میں سے جو تین لعل چنے ہیں ان کے انتخاب کے لیے سخت معیار طے کیا تھا۔

ایک شرط ایسی رکھی جس پر پورا اترنا کارِ دارد تھا لیکن اس نے مختار مسعود کے لیے ایک لاجواب انتخاب آسان بنا دیا تھا۔ وہ اپنے اس کڑے معیار کے بارے لکھتے ہیں:

”جنہوں نے اقتدار اور دولت کی ترغیب اور تحریص کا مقابلہ کیا اور اپنی زندگی پڑھنے لکھنے کے لیے وقف کردی۔ معلمی ان کا ہمہ وقتی مشغلہ ہو اور انہوں نے پڑھانے کے ساتھ ساتھ تصنیف، تالیف، تحقیق اور تنقید وغیرہ کے میدان میں اپنا جھنڈا گاڑا ہو۔“

اس چھلنی سے  گزرنے والے طالب علم تھے اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر زوار حسین زیدی اور ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو۔

ان تینوں میں جو قدریں مشترک تھیں انہیں مختار مسعود نے دل نشین اسلوب میں رقم کیا ہے:

”ہم عصراور ہم طالع۔اچھے طالب علم اور کامیاب معلم۔علم سے محبت کرنے والے عالم۔ ان کے علمی کارناموں کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ان کی شخصیت کو کسی نے مثالی کہا اور کسی نے قابلِ تقلید نمونہ قرار دیا۔ اگر آنے والی نسلوں کو ایسے لوگ انسپائر نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟“

ان تین نابغوں میں سے دو نے انڈیا ہی میں رہنا پسند کیا اور تیسرے نے پاکستان ہجرت کی۔ یہ تمہید دراصل انہی گراں قدر شخصیت کے تذکرے کے لیے ہی  باندھی گئی جنہیں زندگی کے آخری دنوں میں بے توقیری کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ڈاکٹر زوار حسین زیدی کا تذکرہ ہے جن کی ناقدری کے محضر پر پاکستانی سرکار  کی مہر ثبت ہے۔

ڈاکٹر زوار کی محسن کشی کے قصے کا آغاز بھی ان کے قدر شناس مختار مسعود کی لکھت سے کرتے ہیں:

”انتقال سے چند دن پہلے ڈاکٹر زوار زیدی سرکاری گھر سے بالجبر بے دخل کیے گئے تھے۔ سامان گھر سے نکال کر باہر سڑک پر رکھ دیا گیا۔ یہ کیسے بے خبر اور بے درد لوگ تھے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے وہ سلوک کیا جو نادہندہ مقروض کے خلاف ڈگری جاری ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کسی کے قرض دار نہیں تھے بلکہ یہ ملک ان کا مقروض تھا… جس طرح انہیں سرکاری گھر سے بے دخل کیا گیا۔ وہ ایک عمر رسیدہ حساس اور شریف النفس سکالر کی جان لینے سے کم نہ تھا۔ وہ اس صدمے کی تاب نہ لا سکے ۔ ملک کی داغدار تاریخ میں ایک داغ کا اور اضافہ ہو گیا۔”

معروف صحافی اور براڈ کاسٹر وسعت اللہ خان نے 2 اپریل 2009 کو اپنے کالم ’زوار کو مستقل مکان مل گیا!‘ میں لکھا:

”ڈاکٹر زوار زیدی کو اسلام آباد میں جو سرکاری مکان ملا ہوا تھا وہ گریڈ سترہ کی ایک خاتون افسر نے اپنے بااثر صحافی شوہر کی مدد سے خاموشی سے اپنے نام الاٹ کرا لیا۔اور زوار زیدی کا سامان گھر سے نکال کر سڑک پر رکھ دیا گیا۔بعد میں ذرائع ابلاغ میں شورو غل کے سبب یہ زبردستی کی الاٹ منٹ تو منسوخ ہوگئی لیکن زوار زیدی کی غیرت نے اسلام آباد رہنا گوارا نہیں کیا اور خاموشی سے لاہور منتقل ہو گئے۔اور پھر یہ خاموشی دل کے دورے میں تبدیل ہو کر انہیں ہمیشہ کے لیے وہاں لے گئی جہاں سے انہیں کوئی بے دخل نہیں کرسکے گا۔‘‘

سرکار کے ہاتھوں 2009 میں لگنے والے اس گھاؤ سے پہلے ڈاکٹر زوار حسین زیدی کو زندگی میں دوگہرے چرکے بھی لگے۔معروف محقق محمد حمزہ فاروقی نے ادبی جریدے مکالمہ کے سالنامے(2021) میں ڈاکٹر صاحب پر تفصیلی مضمون میں ان کے بنگلے پرقبضے کا قصہ لکھا ہے جسے چھڑانے کی کوششیں بے سود رہی تھیں۔دوسرا صدمہ بیٹے کی ناگہانی موت تھی۔حمزہ فاروقی کے بقول”سلمان کو انگریز غنڈوں نے دریائے ٹیمز میں ڈبو دیا تھا۔“

ان پے در پے سانحات  کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر زوار کی علمی و تحقیقی خدمات کا مرکز ’جناح پیپرز‘ کی تدوین وترتیب ہے۔ اس مردِ تحقیق نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں اہم ترین دستاویزات کو یکجا کردیا جو نہ صرف خود ایک تحقیقی معرکہ تھا بلکہ پاکستان کی تاریخ کے محققین کے لیے بنیادی حوالے اور بیش بہا سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پوری جاں فشانی سے کام کیا۔ اس سنگِ میل کو طے کرنے سے پہلے ڈاکٹر زوار نے ایک طویل علمی مسافت طے کی تھی جس کا ہر پڑاؤ رشک کے قابل ہے۔

زوار حسین زیدی نے علی گڑھ سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا۔کچھ عرصہ ایچی سن کالج سے وابستگی رہی۔14 برس ایف سی کالج میں پڑھایا۔ انگلینڈ سے تقسیم بنگال کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں لندن سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز سے جڑ گئے اور تین عشروں سے زائد اس سے متعلق رہے۔

اس وابستگی کے دوران پاکستان میں علمی سرگرمیوں کا دریچہ کھلا رکھا۔1965  میں تقسیمِ ہند پر بین الاقوامی سیمینار کے لیے مسلم لیگ پر مقالہ لکھنے کی ذمے داری تفویض ہوئی۔ اس راہ پر قدم رکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ ایوب خان کے مارشل لا کے بعد مسلم لیگ کا ریکارڈ سربہمر کرکے سپردِخاک کردیاگیا ہے ۔

ڈاکٹر زوار اس قیمتی تاریخی اثاثے کے تحفظ کے لیے متحرک ہوئے۔ اس کارِخیر میں  نواب آف کالا باغ نے ان کی مدد کی جن کے بیٹے زوار صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔بات ایوب خان تک پہنچی، جس سے اتنا تو ہوا کہ سپیشل برانچ کے قبضے میں جو ریکارڈ تھا اس تک رسائی ممکن ہوئی۔اب اسے کسی محفوظ مقام پر پہنچانا اصل مسئلہ تھا جسے حل کرنے میں سرکاری ادارے پہلوتہی کررہے تھے۔

زوار حسین نے ایوب خان کے سامنے اپنا مقدمہ رکھااور دستاویزات کی اہمیت  انہیں باور کروائی۔ایوب خان نے مسلم لیگ کا تمام ریکارڈ کراچی یونیورسٹی منتقل کرنے کا حکم دیا تو یہ کڑی مہم بھی سر ہوگئی۔

اس کے بعد زوار حسین نجی دستاویزات اکٹھی کرنے میں جٹ گئے اور انہیں اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

سید شمس الحسن کے پاس قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات کا بڑا اہم ذخیرہ تھا جسے انہوں نے ان کے بیٹے خالد حسن کی اعانت سے مرتب کیا۔

فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی رہائش گاہ سے قائد اعظم کے بارے میں دستاویزات اور خطوط بھی ڈاکٹر زوارکی کوششوں اور ذاتی دلچسپی کی بنا پر کراچی یونیورسٹی منتقل ہوئے۔ان دستاویزات کا معاملہ ہو یا  مسلم لیگ کے ریکارڈ کا تحفظ یقینی بنانا، اس ضمن میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اشتیاق حسین قریشی نے بھی اہم کردار اداکیا جنہوں نے  زوار حسین کی معروضات سن کر ان کے حق میں ایوب خان سے فیصلہ کروایا۔

ملک میں سیاسی موسم بدلتے رہے لیکن ڈاکٹر زوار اس سے بے نیاز ہو کر مسلم لیگ، تحریکِ پاکستان، تقسیم اور قائد اعظم کے بارے میں دستاویزات کی کھوج اور تحفظ کی کوششوں میں لگے رہے۔ ان کی علمی  تگ و تاز کو  متعین رخ ملنے کی راہ نوے کی دہائی کے شروع میں ہموار ہوئی جب ان کا ذوقِ تحقیق انہیں مستقل پاکستان لے آیا۔

 انہوں نے نیشنل آرکائیوز  آف پاکستان کے اربابِ اختیار کو قائل  کیا کہ قائداعظم کے بارے میں دستاویزات چھان پھٹک کے بعد تدوین کے مراحل سے گزار کر سلیقے سے شائع ہونی چاہییں۔اس تجویز کو پذیرائی ملی۔1992  میں  قائد اعظم پیپرز پروجیکٹ کے نام سے ادارے کاقیام عمل میں آیا اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی اس کے مدیرِ اعلیٰ مقررہوئے۔

ان کی محنتِ شاقہ کا پہلا پھل 1993میں جناح پیپرز کی دو جلدوں کی صورت میں سامنے آیا۔ممتاز دانش ور ڈاکٹر اقبال احمد کے بقول ”میں پروفیسر زیدی کو جانتا ہوں جو  دھن کے پکے ہیں…آپ نے مسٹر جناح کے نجی کاغذات کو صریح بے توجہی اور آمریت کے تاریک عقوبت خانے سے نکال لیا ہے۔“

ان دو جلدوں کے بعد بھی یہ سفر رکا نہیں۔وہ کام کے دوران ٹھیکی لینے یعنی ’آگے چلیں گے دَم لے کر‘کے قائل نہ تھے. ان  کی زندگی میں جناح پیپرز کی چودہ  جلدیں شائع ہوئیں ۔اس کام کی تحسین ملکی و غیر ملکی سکالروں نے کی ۔

قائد اعظم کی بیٹی دینا واڈیا نے ان سے کہاتھا:

Zaidi,how have you done this! .My father must be very grateful to you.

معروف دانش ور پروفیسر کرار حسین نے جناح پیپرزکی تحسین کرتے ہوئے فارسی کا یہ شعر نقل کیا تھا جسے زوار حسین زیدی قائد اعظم پر اپنے کام کے لیے حسب حال جانتے تھے:

حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم

شادم از زندگئ خویش کہ کارے کردم

یہ ایک سچے استاد، محقق اور سکالر کی جدوجہد کا خلاصہ ہے، جسمانی عوارض بھی جس کی ہمت  پسپا نہ کرسکے، لیکن سرکاری گماشتوں کی چیرہ دستیوں سے وہ ڈھے گیا۔میدانِ علم میں ہمارے پچھڑنے کا بنیادی سبب اہلِ علم کا اکرام نہ کرنا ہے۔ ہماری توجہ کے مستحق زیادہ تر علم دشمن ٹھہرتے ہیں۔انہی  کے ہم قدم لیتے ہیں۔اس روش کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

یہ مضمون لکھتے ہوئے اہل علم کی توقیر کی کئی مثالیں ذہن میں آتی رہیں لیکن گزشتہ دنوں امین مالوف کا ناول’سمرقند‘ جس کا  ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے زیر مطالعہ رہا تو اس سے ایک حوالہ جو ذہن میں تازہ ہے نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ناول میں ایک جگہ  نظام الملک طوسی عمر خیام سے کہتا ہے:

’’میری تسلی کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وقائع نگار آئندگان کے لیے یہ رقم کریں گے کہ عمر خیام، نظام الملک کے عہد میں ہوا اور کہ اس کی تعظیم ہوئی، اسے بدموسموں سے پناہ دی گئی۔‘’

کاش ہمیں بھی وہ حکمران نصیب ہوتے جن کے بارے میں کہا جاسکتا کہ ان کے عہد میں اہل علم کی قدردانی ہوئی اور انہیں بدموسموں سے پناہ دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp