ایک سبق ابراہیم رئیسی کے ایران سے

اتوار 26 مئی 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اس عالم ناپائیدار میں اپنے کردار کا نقش ثبت کرکے راہیِ ملک عدم ہوئے۔ اس قسم کی بات ویسے تو ایسے قائدین کے بارے میں کہی جاتی ہے جو طویل عرصے تک حکمراں رہیں اور بہت سے جھگڑوں اور جنگ و جدل سے بھری دنیا میں بہت سے دوست اور ان سے زیادہ دشمن بنا کر رخصت ہوں جن سے محبت کرنے والے بھی بہت ہوں اور ان سے اختلاف یا نفرت کرنے والے بھی یعنی بہت متنازع ہوں۔

ڈاکٹر ابراہیم رئیسی پہلے معیار پر تو پورے نہیں اترتے البتہ دوسرے معیار کی بات مختلف ہے۔ انقلابی عدالت میں ان کا جو کردار بھی رہا ہوگا، اس حوالے سے وہ یقیناً زیر بحث آتے ہیں۔ تاریخ داں جب ان کے کردار کا تذکرہ کرے گا تو وہ یقیناً اس پہلو پر بھی توجہ دے گا، ممکن ہے کہ وہ اس ضمن میں کوئی نئی اور دل چسپ بات بھی ہمیں بتا سکے لیکن جس ابراہیم رئیسی کو ہم نے ایران کے صدر کی حیثیت سے دیکھا ہے، وہ مختلف اور تاریخی شخصیت تھے۔

گنتی کے چند روز ہی تو گزرے ہیں، صدر ابراہیم رئیسی پاکستان میں تھے۔ اس موقع پر ہم نے ان کی مسکراہٹیں بھی دیکھیں اور سنجیدگی بھی۔ ان کی شخصیت یقیناً غیر معمولی تھی۔ ان کے اعزاز میں تقریب کے موقع پر وزیراعظم شہبازشریف نے فارسی شعر پڑھے۔ مارگلہ کی پہاڑی اور تہران کے کوہ دماوند کا ذکر کیا۔ یہ باتیں سنتے ہوئے ان کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی جو ان کی شفاف شخصیت کو ظاہر کرتی تھی جس سے ثابت ہوا کہ یہ شخص جیسا ہے، ویسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں وہ 2 روز کے لیے آئے اور اس کے 3 شہروں میں گئے۔ اسلام آباد میں دو طرفہ مذاکرات میں شرکت کی۔ عمائدین شہر اور دانش وروں کے گروہ سے ملاقات کی۔ اگی صبح وہ لاہور پہنچ گئے جہاں انہوں نے اقبال لاہوری کے مرقد پر حاضری دی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اسی روز وہ کراچی پہنچ گئے۔ وہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

پاکستان میں قیام کے 48 گھنٹے انھوں نے مسلسل مصروفیت میں گزارے۔ ان کی مصروفیات کو خاتون اوّل کی سرگرمیوں نے مزید بامعنی بنا دیا۔ سربراہ مملکت کی سطح کے سرکاری دوروں میں میکانکی کیفیت ہوتی ہے لیکن یہ دورہ ہر اعتبار سے مختلف اور پر جوش تھا۔ بانیان پاکستان کے مزاروں پر حاضری، عوامی سطح پر رابطے اور ایرانی خاتون اول کے 3 یونیورسٹیوں کے دورے نے اسے مزید پرجوش اور بامعنی بنا دیا۔

چند برس قبل صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کو کئی عوامل نے نقصان پہنچایا۔ ان عوامل میں بھارت خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے جس کے جاسوس کی گرفتاری نے اس دورے پر نحوست کے سائے ڈال دیے۔ خود صدر رئیسی کی آمد سے قبل انقلابی گارڈز کی طرف سے پاکستان پر حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے ماحول خراب کر دیا تھا۔ اس قسم کے حالات میں دورۂ پاکستان کا فیصلہ غیر معمولی تھا۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ صدر رئیسی چیلنج کا سامنا کرنے اور اپنی دانش مندی سے مسائل کو حل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کے دورہ پاکستان سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اس ناخوش گوار ماضی کو پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان ایک نیا آغاز کیا جائے جس سے باہمی احترام کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کے مسائل میں کمی آئے اور وہ خوش حال ہو سکیں۔

ان کا وہ دورہ بھی اسی قسم کا تھا جس میں ان کی جان چلی گئی۔ پڑوسی آذربائیجان کے ساتھ بھی ایران کے تعلقات میں تلخی رہی ہے لیکن انہوں نے اس ملک کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ شروع کرکے نیا آغاز کیا۔ صدر رئیسی کے یہی فیصلے تاریخ میں ان کے بڑے مرتبے کو یقینی بنائیں گے۔

صدر ابراہیم رئیسی کو ان کے ماضی کے تعلق سے سخت گیر راہ نما خیال کیا جاتا تھا لیکن پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو معمول لانے کی کوششیں اس تاثر کی نفی کرتی ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی پالیسیاں لچک دار تھیں۔ وہ اپنا جائزہ لینے کے بھی اہل تھے اور اپنے وطن کو بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ یہی خوبیاں ہوں گی جن کی وجہ سے انہیں آیت اللہ خامنہ ای کا جانشین سمجھا جاتا ہوگا۔ اس پس منظر میں ان کی موت ایرانی قوم کے لیے یقیناً ایک بڑا سانحہ تو ہے ہی، خطے کے لیے بھی بدقسمتی ہے۔

اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان سے ملاقات کے مناظر میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ اس موقع پر بعض پرجوش لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان سے ہاتھ ملایا، سلفیاں لیں اور محبت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر نہ ان کی صدارتی سیکیورٹی متحرک ہوئی اور نہ وہ خود اس کیفیت سے پریشان ہوئے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رہی اور وہ اپنے چاہنے والوں کی محبت کا جواب شفقت سے دیتے رہے۔

صدر رئیسی کا طرز عمل ظاہر کرتا تھا کہ وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر نئی تاریخ رقم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان کی یہی گرم جوشی اور خلوص تھا جس نے ان کے دورہ پاکستان کو یادگار بنادیا۔ کیا ان کی یہ پالیسی برقرار رہ سکے گی؟ کیا ان کا جانشین اپنے پڑوسیوں خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی جاری رکھے گا؟

یہ سوال بہت اہم ہیں۔ ان سوالات کا تعلق ایران کے معاشی مستقبل کے ساتھ بھی ہے اور اس کے پڑوسیوں کے مستقبل سے بھی۔ اس کا اندازہ تو ان کے جانشین کے انتخاب کے بعد ہوسکے گا لیکن میرے خیال میں اس سے زیادہ اہم بات ایک اور ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ رئیسی کے بعد کے ایران میں ہمارے لیے سیکھنے کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟

ایران کو زلزلے کی طرح جھنجھوڑ دینے والے اس سانحے کا سبب کیا تھا۔ جیسے کہا جا رہا ہے، کیا واقعی اس کے پیچھے کوئی سازش تھی؟ تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہو جائے گا لیکن اہم بات ایران کا نظام ہے۔ 1979 میں انقلاب کے فوراً بعد ہی ایک بڑا سانحہ ہوا تھا۔ ایک دھماکے اہم ریاستی عہدے داروں اور ارکان پارلیمنٹ کو اڑا دیا گیا تھا۔

یہ تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ ریاست کو اس کے سر سے محروم کر دینے کے برابر تھا۔ اتنے بڑے حادثے میں بھی ایران نے اپنے اوسان بحال رکھے اور تھوڑے دنوں میں ہی نئی پارلیمنٹ اور نئی قیادت منتخب کرکے انقلاب کو محفوظ رکھا۔

نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جس ایران کی عراق کے ساتھ جنگ جاری تھی۔ حالیہ واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے لیکن مرنے والے کی تدفین سے قبل آئندہ صدارتی انتخابات کی تاریخ سامنے آچکی ہے۔ آثار یہی ہیں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ایران سے چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اس سے 45 برس قدیم اس نظام کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایران ہر قسم کے چیلنج کے باوجود محفوظ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری کیفیت مختلف ہے۔ پاکستان 76 برس کا ہوچکا ہے۔ اس کا آئین بھی 50 برس پہلے بن چکا تھا لیکن ملک میں استحکام اب بھی نہیں۔ اداروں کے درمیان کشیدگی دکھائی دیتی ہے۔ اس چیز نے عوام میں مستقبل کے بارے میں پریشانی پیدا کردی ہے۔ ایران کی طرف دیکھیں اور اپنے حالات کا جائزہ لیں تو فرق واضح ہے۔ بس یہی سبق ہمارے سیکھنے کا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp