جیسا چل رہا ہے چلنے دو

منگل 28 مئی 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگلے مہینے بجٹ آنے والا ہے مگر خوف ابھی سے طاری ہے۔ میرے آس پاس کے لوگ یہی دعا کر رہے ہیں کہ جتنا بوجھ عام آدمی کی کمر پر لد چکا ہے اگر وہ کم نہیں ہو سکتا تو کم از کم اور نہ بڑھے۔ خوف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عین اس وقت آئی ایم ایف سے نئے مالیاتی پیکیج کے لیے بات چیت جاری ہے۔آئی ایم ایف کی ٹیم دو ہفتے اسلام آباد میں گزار کے واپس گئی ہے۔

حکومت تو پچھلے دور کی طرح تسلیاں دے رہی ہے کہ بس نئے پیکیج کے لیے سٹاف لیول کا معاہدہ اب ہوا  کہ جب ہوا۔ البتہ آئی ایم ایف نے گزشتہ پیکیج کی آخری قسطیں دینے کے لیے پچھلی شہباز حکومت کو جس طرح خون تھکوایا، اس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے نئے پیکیج کی منظوری یا نامنظوری کے بارے میں خاموشی اور ڈرا رہی ہے۔

ویسے تو نئے مالیاتی انتظام کا تپتا سورج جب چڑھے گا تب ہر کوئی اس کی تپش محسوس کرے گا مگر شنید یہ ہے کہ مالیاتی خسارہ ایک مقررہ حد میں رکھنے کے لیے آئی ایم ایف جو اقدامات مبینہ طور پر تجویز کر رہا ہے، ان کے لاگو ہونے سے پٹرولیم مصنوعات پر سرچارج و لیویز میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ یعنی پٹرول اور مہنگا ہو سکتا ہے۔ گیس کی قیمت میں بھی بیس سے تیس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیپیٹل گین ٹیکس اور جی ایس ٹی کی شرح میں بھی رد و بدل ممکن ہے۔ املاک کی خرید و فروخت اور زرعی آمدنی پر ٹیکس لاگو کرنے کے لیے قانون میں بدلاؤ بھی ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف نے سیاسی استحکام کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو بھی سرکردہ جماعتیں ہیں کیا انہیں آئی ایم ایف سے اگلے سمجھوتے کی بابت ایک پیج پر لایا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں آئی ایم ایف کو یقین دلانے کے لیے کوئی اجتماعی تحریری یقین دہانی دینا ممکن ہو گا؟

مبادا  کل کلاں حکومتِ وقت  وہی رونا گانا شروع نہ کر دے کہ عالی جاہ! فی الحال اگر فلاں طے شدہ شرط عارضی طور پر نرم یا موقوف کر دیں یا معاشی و سیاسی حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے فلاں فلاں وعدے کو درگزر فرما دیں تو فدوی احسان مند ہو گا۔

آئی ایم ایف چونکہ ہم سے آج سے نہیں پچھلے چھیاسٹھ برس سے واقف ہے لہذا کہا جا رہا ہے کہ آئندہ کی ریں راں سے بچنے کے لیے اس کی خواہش ہے ( یہاں خواہش کو حکم سمجھا جائے ( کہ  حکومت فی الحال نیا پیکیج منظور کروانے کی خاطر چاند تارے توڑ لانے سمیت جو جو وعدے کر رہی ہے یا جن جن شرائط پر اتفاق کر رہی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے اسٹاف لیول سمجھوتے سے قبل ضروری قانون سازی ہو جائے تو بہتر ہوگا ہے۔

آئی ایم ایف ہو یا کوئی اور عالمی مالیاتی ادارہ، سب کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ اگر معاشی بحران سے نکلنا ہے تو اس کا راستہ ٹیکس زدہ جنتا پر مسلسل  براہِ راست یا بلاواسطہ ٹیکس لگانا نہیں بلکہ معیشت اور گورننس کے ڈھانچے میں اس طرح کی ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں کرنا ہے جن کے نتیجے میں مراعات نیچے سے اوپر کے بجائے اوپر سے نیچے محروم طبقات کو منتقل ہوں۔

موجودہ ڈھانچے کو برقرار رکھنا اب ریاست کے لیے بھی دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس کی گردن میں جو موٹے موٹے طوق پڑے ہوئے ہیں ان میں سب سے بڑا طوق غیر ملکی قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کا ہے۔ اس برس غیر سرکاری ماہرین کا تخمینہ ہے کہ ساڑھے سات ٹریلین روپے ( تقریباً چھبیس ارب ڈالر ) سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔

اگلے برس یہ مد بڑھ کے نو ٹریلین روپے یعنی بتیس بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اور صنعت کو دو ہزار اکیس میں ٹیکسوں سمیت ہر طرح کی ترجیحاتی مراعات کی مد میں دو اعشاریہ سات ٹریلین روپے کی چھوٹ دی گئی۔ اس اعتبار سے تین برس بعد یعنی موجودہ سال میں یہ مراعاتی بوجھ تین ٹریلین کے لگ بھگ ہونا چاہیے۔

تیسرا بڑا طوق بجلی پیدا کرنے والوں کو دئیے جانے والے کیپسٹی چارجز ہیں۔ دو اعشاریہ ایک  ٹریلین روپے یعنی تقریباً ساڑھے سات بلین ڈالر۔یہ کیسے ادا ہوں گے۔ ظاہر ہے میری اور آپ کی جیب سے۔ اور یہ وہ برقی استرا ہے جو مسلسل ہمارے ریاستی سر کو زخمی کرتا رہے گا جب تک کہ کوئی مناسب گلو خلاصی کی راہ نہیں نکلتی۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے چودہ برس بعد بھی وہ محکمے اور ڈویژن جن کا انتظام مکمل طور پر صوبوں کو کرنا تھا ان میں سے لگ بھگ ایک درجن محکمے اور ڈویژن آج بھی یا تو وفاق میں ہیں یا پھر ڈپلیکیشن کا شکار ہیں۔ یا تو  وفاق ان محکموں کی جدائی بوجوہ برداشت نہیں کر سکتا یا پھر صوبوں کے پاس وہ مطلوبہ انتظامی قابلیت و صلاحیت نہیں ہے جو ان محکموں کو فعال رکھنے کے لیے درکار ہے۔

اگر  کسی طرح اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے تو کم ازکم تین سو ارب روپے سالانہ کی انتظامی بچت ممکن ہے۔ یعنی اگر کوئی  روشن دماغ دردمند حکومت ہو جسے واقعی حکمران طبقات کے مفادات سے زیادہ عوامی مفادات کا خیال ہو تو مذکورہ بے انتظامی اور اللوں تللوں کو کم کر کے  اور بیمار محکموں اور اداروں کو سبسڈی کے وینٹی لیٹر سے ہٹا کے خسارے کو کم از کم  دو ٹریلین روپے تک کم کیا جا سکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کشکول لے کے تیرے میرے در تک چکر لگانے کی پچاس فیصد  ضرورت ویسے ہی نہیں رہے گی۔ مگر عوام کی گردن پر سے بوجھ اتر گیا تو پھر وہ مزید مطالبے شروع کر دے گی۔ اس لیے جیسا چل رہا ہے چلنے دو جب تک چلے۔ یہ ہے ریاستی پالیسی کا نچوڑ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp