پاکستان کا سفر ۔ مجیب الرحمٰن سے عمران خان تک

بدھ 29 مئی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آدھا سچ جھوٹ سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ دور حاضر میں اس فن میں ایک سیاسی جماعت  کے بانی سے بڑا فنکار کوئی دور دور تک دیکھنے میں نہیں آتا۔ وہ اس فن میں یکتا ہیں۔ جھوٹ کے پلندے کو سچ بتانے میں، غلط کو درست دکھانے میں اور باطل کو حق بنانے میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ کوئی دور دور تک ان کا ثانی نہیں۔ ان کے ہنر کا کمال یہ ہے کہ یہ اس چابکدستی، تسلسل اور تیقن  سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ بولنے والے  انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے جھوٹ پر کبھی شرمسار نہیں ہوتے بلکہ اس عمل کو سیاست بتاتے ہیں  اور اس  پر دھڑلے سے فخر کرتے ہیں۔

آج کل ’ بانی ‘ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان سے بڑا اینٹی اسٹیبلشمنٹ سورما کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا بہت اچھی بات ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے، لوگ بات کریں کہ فوج آئین کے تابع ہو۔ سب ادارے اپنے دائرے میں رہیں۔ پارلیمان کی بالادستی ہو۔ ووٹ کی عزت ہو۔ آئین کی حکمرانی ہو۔  خان صاحب اپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ وہ ایسے ہیں نہیں۔

یہ درست ہے کہ وہ فوج کے چند لوگوں کے خلاف ہیں۔ ان میں سے کچھ چلے ہوئے کارتوس ہیں جن پر بہتان اور دشنام سے نہ فوج کو  کوئی فرق پڑتا ہے نہ عوام کو ۔ اور چند افسران سے خان صاحب کو کچھ کام  ہیں اور وہ چاہتے ہیں سیاسی دباؤ ڈال کر  یہ کام کروا لیں گے۔ خان صاحب بڑی غلطی یہ کر رہے ہیں کہ وہ فوج کی موجودہ قیادت کو جنرل باجوہ سمجھ رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ  جنرل باجوہ اتنے زیرک ہوتے تو عمران خان کبھی اقتدار میں آتے ہی نہیں۔

اٹھائیس مئی یوم تکبیر پاکستان کے لیے تفاخر کا دن ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم نے دشمن کی اگلتی زبانوں کو چپ کروا دیا۔ اسی مبارک دن سے ایک روز پہلے خان صاحب نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے متعلق امریکا میں تیارکردہ، ایک آدھی جھوٹی، آدھی سچی ڈاکومنٹری اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے ٹوئیٹ کروا دی۔ پاکستانیوں کی زندگیوں میں خوشیوں کے دن بدقسمتی سے کم ہوتے ہیں جو ایک دن تھا خان صاحب نے اس دن  کی خوشیاں بھی غارت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

شیخ مجیب الرحمٰن کون تھا؟ بنگلہ دیش کیوں بنا؟ پاکستان کے جسم کا ٹکڑا پاکستان سے علیحدہ کیوں ہوا؟ اس میں دور ایوب کا کتنا قصور تھا؟ یحییٰ خان کے ہاتھ میں ڈوبتی نیا کے پتوار کس نے تھمائے؟ بھٹو نے کیا فاش غلطیاں کیں؟ جمہوریت کہاں دفن ہوئی؟  بھارتی سازش کہاں بے نقاب ہوئی؟ بین الاقوامی قوتوں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کسے کرنا پڑا؟ عوام کی منشا کیا تھی؟ ظلم کے پہاڑ کس نے ، کہاں  توڑے؟

ان سب باتوں سے خان صاحب کو کوئی علاقہ نہیں کیونکہ  تقسیم بنگال کے وقت خان صاحب بنگالی بھائیوں کے لیے نہ چندہ جمع  کر رہے تھے نہ بنگالیوں کے حقوق کے لیے ڈھاکہ میں نعرے  لگا رہے تھے۔ وہ برطانیہ میں اپنی کرکٹ کا آغاز کر رہے تھے۔ انہوں نے اکہتر میں ایجبسٹن کے مقام پر پاکستان کی جانب سے  صرف ایک ٹیسٹ  کھیلا اور ناقص کارکردگی کی بنا پر تین سال کے لیے ٹیم سے باہر کر دیے گئے۔

بانی کا کمال یہ ہے کہ ان کی اپنی تاریخ، اور اپنا ہی جغرافیہ ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ شخص جو جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان میں بارہ موسموں کی موجودگی پر بضد رہتا ہے وہ شخص لوگوں کو تاریخ کا درس دے رہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ سقوط ڈھاکہ تاریخ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جسم سے بازو کٹ جانا بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔ اس سانحے کا اگر ہم کتھارسس کریں تو جہاں اس سازش کی کڑیاں بھارت میں ملتی ہیں وہاں ہمیں دہائیوں بعد اپنی غلطیاں بھی تسلیم کرنا ہوں گی۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ  اس تقسیم کی بنیاد دور ایوب میں رکھی گئی۔ جب بنگالیوں کی ساتھ مخاصمانہ رویہ اختیار کیا گیا، ان کی تضحیک اور توہین سرکاری سطح پر شروع ہو گئی۔ اسی دور میں فاطمہ جناح کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا ۔آج خان صاحب کے جو متوالے آزادی اظہار کا ماتم کر رہے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو ان کی انتخابی مہم کے لیے پہلے ریڈیو پر خطاب کی اجازت نہیں دی گئی، اور  جب اجازت دی گئی تو ان کا خطاب سنسر کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا، اس پر دور ایوب کے اثرات  تھے۔

آج خان صاحب اسی ایوب خان کے پوتے کو بغل میں بٹھا کر، اسے اپنا وزیر اعظم کا امیدوار بنا کر اگر اچانک شیخ مجیب الرحمٰن کو ہیرو بنانا شروع کر دیں تو لوگ انہیں ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ نہیں کہیں گے بلکہ ان کی عقل کا ماتم کریں گے۔ قوم کو ایک جھوٹی ڈاکومنٹری دکھائیں گے جس میں سے ایوب خان کی ہر تقریر، تصویر غائب ہو گی تو کیا لوگ اس پر یقین کریں گے کہ خان صاحب اچانک  اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گئے؟ جب آپ اپنے مقصد کے لیے تاریخی حقائق کو مسخ کریں گے تو لوگ سوال کریں گے  کہ خان صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں یا موقع پرست؟

خان صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے کبھی جنرل مشرف کے پولنگ ایجنٹ نہ بنتے۔ ڈاکومنٹری میں جنرل مشرف کے غیر آئینی  کردار کے پرخچے بھی اڑاتے مگر اس پر بات کرتے خان صاحب اور ان کے حواریوں کے پر جلتے ہیں۔ خان صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو کبھی جنرل ظہیر کے تعاون سے دو ہزار چودہ کا دھرنا کروانا قبول نہیں کرتے۔

بانی پی ٹی آئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو کبھی طاہر القادری اور جنرل پاشا کے ساتھ لندن پلان کا حصہ نہ بنتے۔ عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو کبھی جنرل باجوہ کے کاندھوں پر سوار ہوکر ایوان اقتدار میں نہ آتے۔ کبھی آر ٹی ایس کی تہمت لگوا کر ’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘ کا خطاب قبول نہ کرتے۔  تحریک انصاف کے قائد اگر صحیح معنوں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو کبھی یہ بیان نہ دیتے کہ اگر آئی ایس آئی وزیر اعظم کا فون ریکارڈ کرتی ہے تو بہت اچھا کرتی ہے۔

عمران خان اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو وزارت عظمٰی کے آخری دنوں میں عارف علوی  کے ذریعے جنرل باجوہ کے قدموں میں بیٹھ کر اقتدار کی بھیک نہ مانگ رہے ہوتے۔ عمران خان اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو  پاپا جانز فیم جنرل عاصم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین نہ بناتے اور ان پر کرپشن کے الزامات سامنے آنے کے باوجود ان کے احتساب سے منکر نہ ہوجاتے۔ عمران خان اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو آئین کی بات کر رہے ہوتے افراد کی نہیں۔  خان صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے تو پرویز الہٰی جیسے ڈکٹیٹروں کے رکھوالے کو پارٹی کا صدر نہ بناتے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کی وڈیو جاری کر کے عمران خان نے قوم سے آدھا سچ بولا ہے جو جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ بنگلہ دیش بننا سانحہ تھا۔ اس میں جہاں ہماری اپنی غلطیاں تھیں وہاں دشمن  کی سازشیں بھی شامل تھیں۔

ہمارے ملک کے نوجوانوں کو بس یہ بات یاد رکھنی ہے کہ پہلے دشمن ہماری سرحدوں پر حملہ کرتا تھا اب ہماری نوجوان نسل سے آدھا سچ بول کر ان کی سوچ کو پامال کرتا ہے۔ دشمن آج بھی ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے  ہماری سلامتی کی تاک میں ہے۔ مجیب الرحمٰن سے لیکر عمران خان تک کے سفر میں پاکستان کو دشمنوں کے ساتھ اپنوں نے بھی مسلسل ڈسا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp