کوئٹہ کی تاریخ 31 مئی کو سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ آج سے 89 سال قبل اس خوبصورت وادی میں 30 اور 31 مئی کی درمیانی شب کو ایسا ہولناک زلزلہ آیا جس نے ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کر دیے۔
اس وقت کے ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ ایل اے جی فنھے کی رپورٹ کے مطابق زلزلے کی شدت 7.7 تھی جبکہ زلزلے کا مرکز برطانوی دور کے بلوچستان سے 4 کلو میٹر شمال مغرب میں علی جان تھا۔ رپورٹ کے مطابق زلزلے میں 30 سے 50 ہزار افراد جاں بحق جبکہ 70 سے 80 ہزار افراد متاثر ہوئے تھے۔
اس زلزلے کے عینی شاہد ڈاکٹر نور یاسین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1935 کا کو بلوچستان میں آنے والا یہ زلزلہ اتنا ہولناک تھا کہ اسے یادداشت سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زلزلے میں ہمارے خاندان کے 7 افراد بھی لقمہ اجل بنے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس زلزلہ سے قبل عجیب واقعات بھی رونما ہوئے تھے جن میں ایک واقع یہ بھی تھا کہ بمبئی اولمپیا ریکارڈ پر ایک ملنگ کی آواز چلا کرتی تھی جو کہا کرتا تھا کہ کوئٹہ والو! خیال کرو زلزلہ آنے والا ہے، اس کے علاوہ رات کے اوقات میں جانور رویا کرتے تھے جس پر لوگوں نے کچھ خاص دھیان نہیں دیا۔
ڈاکٹر نور یاسین نے بتایا کہ 31 مئی کو کوئٹہ میں معمول سے زیادہ گرمی تھی تب لوگوں کے پاس پنکھے نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ زیادہ تر گھر کی چھت پر سویا کرتے تھے، لیکن اس رات زلزلے سے قبل شدید آندھی چلی اور تقریباً 3 بجے زلزلہ آیا جس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ زمین پھٹ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس زلزلے کی آواز انتہائی خوف ناک تھی، زلزلے کا دورانیہ صرف 45 سیکنڈ تھا لیکن یوں لگا کہ کئی گھنٹے ہو گئے ہیں، جب زلزلہ ختم ہوا تو لوگوں نے اپنے پیاروں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر نور یاسین نے بتایا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے یکم جون کو اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے تو معلوم ہوا کہ اس میں تو ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نور یاسین کا کہنا ہے کہ جو لوگ زندہ بچ گئے دوسرے روز انہیں سٹی نالے میں کیمپ لگا کر پناہ دی گئی اور زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس وقت مسلمانوں کو کاسی قبرستان میں دفنایا گیاجبکہ عیسائی افراد کی تدفین گورا قبرستان میں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ زلزلے سے شہر مکمل طور پر براہ ہو گیا تھا اور کوئی بھی عمارت نہیں بچی تھی3 سے 4 ماہ تک ریلیف کا کام چلتا رہا جبکہ بحالی کا کام آہستہ آہستہ شروع ہوا۔