داخلہ امور اور احتساب کے معاملات پر وزیرِاعظم کے معاون خصوصی اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ متنازعہ ہوچکی ہے اور عدلیہ کی ساکھ صرف اسی صورت بحال ہوسکتی ہے اگر وہ اپنے متنازعہ فیصلوں پر نظرثانی کرکے ان کو ختم کرے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ جب غلطی کرتی ہے تو سب سے زیادہ دکھ انہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کو غلطیوں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی حکومت کو غلط طریقے سے ختم کیا گیا، اسی طرح سپریم کورٹ کا 2 صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینا اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔ پانامہ فیصلے کے ذریعے میاں نواز شریف کی حکومت غلط طریقے سے ختم کی گئی، یوسف رضا گیلانی، طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور ان سب سے بڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ جس کی نظرثانی درخواست اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ان سب مقدمات پر سپریم کورٹ کے فل بینچ کو نظرثانی کرکے ان فیصلوں کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی سے عدلیہ کے بارے میں قائم تاثر کی نفی ممکن ہوسکے گی۔
عرفان قادر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی جس طرح سے تشریح کی گئی اس پر سپریم کورٹ کے دوسرے ججوں نے کہا کہ آئین کو ری رائٹ کیا گیا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ہم خیال بینچ تو میڈیا کی اصطلاح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سو موٹو مقدمات میں جس طرح سے عدالتی دائرہ اختیار کا استعمال ہو رہا ہے اسی سے بینچ فکسیشن کا تاثر گہرا ہورہا ہے اور ان معاملات پر قانون سازی ہونی چاہیے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمنٹ سے استعفے نہیں دینے چاہئیں تھے اور پارلیمان میں ایک مؤثراپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب 18ویں ترمیم کا کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا تھا تو ایک سیمینار میں رضا ربانی نے انہیں بتایا کہ انہیں چیف جسٹس نے خود بلا کر کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تعداد بڑھائی جائے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر وہ توہینِ عدالت کے قانون کے خلاف ہیں اور اس قانون کو صرف اسی صورت روبہ عمل آنا چاہیے جب کسی عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد نہ ہو رہا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے اندر یہ جو ایک برتری کا تصور ہے اور ایک ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے جج کسی بہت ہی اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، دراصل یہ غلط تصور ہے، آئینی اور قانونی طور پر جج پبلک سرونٹس ہیں اور ہمارا آئین تکریم انسانیت کی بات کرتا ہے نہ کہ تکریم ججز کی۔
اپنے کسی مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان قادر نے بتایا کہ جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ تکریم صرف روسٹرم کے اس طرف ہے اور ہماری کوئی تکریم نہیں۔ عرفان قادر نے کہا ججوں کی سلیکشن سے پہلے ان کا نفسیاتی معائنہ بھی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند جج ساری عدلیہ کی توہین کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ججوں کی کچھ آڈیو لیکس کی بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ سارے فریقین کو بلا کر ان کی تفتیش کرائی جائے اور کہا جائے کہ یہ آڈیوز جعلی ہیں۔
ہم نے ان سے سوال پوچھا کہ عدالت اپنے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیوں نہیں کروا پا رہی؟ جس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا ایک پس منظر ہے۔ ابتدا میں عدالتیں کچھ سیاسی سوالات میں ملوث ہوئیں اور یہ تاثر بنا کہ عدالتیں کسی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں، یہ اسی نرم گوشے کا شاخسانہ ہے جو لوگ ان وارنٹس کی تعمیل نہیں کر رہے، ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کو عدالتوں سے رعایت مل رہی ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے وکلا تیاری کرکے نہیں آتے اس لیے عدالتوں سے تاریخوں پر تاریخیں لیے جاتے ہیں۔ اگر وہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کو غلط سمجھتے ہیں تو چند تاریخوں میں یہ مقدمات ختم ہوجانے چاہئیں’۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پانامہ مقدمے میں مریم نواز شریف کے خلاف غلط فیصلہ دیا گیا اور جب وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو 2، 3 تاریخوں میں انہوں نے سارے دلائل زبانی اور تحریری طور پر جمع کرا دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخیں وہ وکلا لیتے ہیں جن کو لگتا ہے کہ ان کے مقدمے میں جان نہیں۔
ہم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ مریم نواز کی بریت کے مقدمے میں آپ نے کہا کہ پانامہ مقدمہ رجیم چینج کے لیے بنایا گیا تو کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ حکومت کی تبدیلی میں جج ملوث تھے؟ اس سوال کے جواب میں عرفان قادر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو حقائق اکٹھے کیے ان سے بظاہر سیاسی انجینیئرنگ کا تاٗثر ابھر رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانامہ مقدمے میں 2 قسم کے جج تھے۔ ایک وہ جو کچھ زیادہ ہی پُرجوش تھے اور دوسرے وہ جو کچھ میڈیا کے بنائے گئے تاثر میں بہہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا سے اثر لینے والے ججوں سے سنجیدہ غلطی ہوئی حالانکہ ان کی قانون کی سمجھ بوجھ کافی زیادہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ججوں نے فیصلے کو قانون کی کسوٹی پر نہیں پرکھا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ججوں کا کام نہیں کہ مقبول عام تاثر یا پاپولر سینٹیمنٹ کے زیرِ اثر آئیں۔ فیصلہ ایسا ہونا چاہیے جو انصاف کے حصول کے لیے بھی درست ہو اور قانون سے بھی ہم آہنگ ہو۔
دوسرے جو کچھ زیادہ پُرجوش قسم کےجج تھے ان کے تواتر سے ایسے فیصلے آئے جو ایک ہی ڈائریکشن میں تھے۔ ابھی ایک جج کا ذکر خان محمد بھٹی کی ویڈیو میں آگیا۔ وہ جج صاحب کچھ سن کر بہت زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں اور یہ مائنڈ سیٹ تھا جو نظر آتا ہے کہ سیاسی انجینیئرنگ میں ملوث تھا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جب بھی ایک آزادانہ انکوائری ہوگی تو چیزیں نکھر کے سامنے آجائیں گی۔
ملک میں سیاسی افراتفری جو معاشی افراتفری یا معاشی انحطاط میں بدل چکی ہے، اس میں عدلیہ کا کیا کردار ہے۔ اس سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ صرف ایک فیصلہ جس میں سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ دی اور اسی دن اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدلیہ مقننّہ کی حدود میں جا کر کام کر رہی ہے۔ پہلے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح کی گئی اور اس کے بعد کہا گیا کہ انتخابات کا اعلان صدرِ مملکت کریں گے حالانکہ صدرِ مملکت صرف اس صورت میں اعلان کرتے ہیں جب سارے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس مقدمے میں وکلا نے سپریم کورٹ کی ٹھیک طریقے سے رہنمائی نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل اپنی پریکٹس بچانے کے لیے وکلا وہ بات کرتے ہیں جو جج سننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے پر مجھے بہت افسوس ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد بہت سے ایسے وکلا جج بن گئے ہیں جن کا آئینی مقدمات میں وکالت کا کوئی تجربہ نہیں تھا