پاکستان تحریک انصاف کی سیاست تضادات سے بھرپور ہے۔ آئے روز اپنے ہی بیانات اور پالیسی سے انحراف پارٹی کے سربراہ سمیت تمام رہنماؤں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ پارٹی نے سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے ملک کی سیاست میں بھونچال پیدا کرکے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو نئی الجھن میں ڈال دیا۔ روایتی سیاستدان نئی نسل کو ہمیشہ سے نظرانداز کرتے رہے لیکن عمران خان نے نوجوانوں کو متحرک کرکے انہیں تبدیلی اور نیا پاکستان کا نعرہ دے کر نئی ڈگر پر ڈال دیا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ روایتی جماعتیں تحریک انصاف کی سوشل میڈیا طاقت کے سامنے بے بس ہیں۔ مگر دوسری طرف یہی سوشل میڈیا تحریک انصاف کے ہر یوٹرن کو بھی آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور عمران خان کے ماضی کے تمام بیانات اور تضادات کو کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔
یوں تو سیاست میں یو ٹرن لینے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ دنیا بھر کی جماعتیں اور ان کے لیڈر کسی معاملے پر اپنا موقف کچھ عرصے بعد تبدیل کرلیتے ہیں مگر آئے روز بیانیہ تبدیل کرنے سے جماعتیں عوام کی نظر میں آہستہ آہستہ اپنا اعتبار کھونا شروع کردیتی ہیں۔ یہی حال کچھ تحریک انصاف کا بھی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایک بیان آتا ہے اور اگلے دن اس کی تردید آجاتی ہے۔ پارٹی رہنما عمران خان سے ملاقات کرکے ہر سیاسی مسئلے پر ان کا موقف بیان کرتے ہیں۔ پھر دوسرا گروپ جیل میں ملاقات کرتا ہے اور ایک نیا بیان آجاتا ہے۔
28 مئی کے موقع پر عمران خان کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ’دستاویزی‘ فلم ریلیز کی جاتی ہے جس میں وہ 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہونے کی ذمہ داری یحییٰ خان پر ڈالتے ہوئے انہیں غدار قرار دیتے ہیں اور شیخ مجیب الرحمان کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر انہی کی پرانی ویڈیوز کی بھرمار ہوجاتی ہے جن میں نواز شریف کو شیخ مجیب کی طرح غدار کہہ رہے ہیں۔ شدید تنقید سامنے آنے پر پارٹی رہنما تذبذب کو شکار ہو گئے اور دو چار روز تک انہیں سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس پر کیا موقف اختیار کریں۔
تحریک انصاف کے ایک پارٹی لیڈر نے کہاکہ عمران خان بالکل درست کہہ رہے ہیں شیخ مجیب غدار نہیں تھا، دوسرے نے کہاکہ یہ ٹوئٹ خان صاحب نے خود نہیں کی۔ پھر موقف آیا کہ تحقیق کی جاری ہے کہ یہ ٹوئٹ کس نے کی۔ عمران خان کا ٹوئٹر ہنڈل بیرون ملک سے چلایا جارہا ہے مگر ہر ٹوئٹ انہیں دکھاکر شیئر کی جاتی ہے۔ دوسرے لیڈر نے کہاکہ عمران خان کا اکاؤنٹ امریکا سے چلتا ہے اور انہیں اس پوسٹ کا علم نہیں۔ مگر ٹوئٹ اب تک ڈیلیٹ نہیں ہوئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے تمام رہنما عجیب کشمکش کا شکار ہیں اور عمران خان خاموشی سے اس ہنگامے سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ اگر انہیں اس پوسٹ پر کوئی اعتراض ہوتا تو اب تک اسے ڈیلیٹ کردیا جاتا۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ بھرپور طریقے سے اپنے لیڈر عمران خان کا دفاع کر رہی ہے اور حمودالرحمان رپورٹ کے مختلف پہلوؤں پر گرماگرم بحث چل رہی ہے۔ یعنی ان کے خیال میں عمران خان نے ویڈیو سوچ سمجھ کر پوسٹ کی ہے اور اس پر قائم ہیں۔ بلکہ تحریک انصاف کے ایک وکیل رہنما نے بتایا کہ عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ٹوئٹ ڈیلیٹ نہ کرنا اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کا مطلب ملک کے طاقتور حلقوں کے ساتھ جاری لڑائی کو طوالت دینے کے مترادف ہے۔ پارٹی رہنما ایک طرف کہتے ہیں کہ عمران خان چور ڈاکو سیاستدانوں سے مذاکرات کسی صورت نہیں کریں گے اور بات چیت صرف ملک کے اصل حکمرانوں یعنی فوج کے سربراہ سے ہی ہوگی۔ اب یہ تاثر بھی سامنے آنے لگا ہے کہ عمران خان سخت بیانیہ اپنا کر اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر انہیں مذاکرات کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
عمران خان اور پارٹی رہنما آئے روز یہ کہتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال سیاسی استحکام کے بغیر بہتر نہیں ہوسکتی اور سیاسی استحکام تبھی آئے گا جب تحریک انصاف کو اس کا مینڈیٹ واپس ملے اور عمران سمیت تمام رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم ہوں۔
دوسری جانب فوج کی ہائی کمان ہر میٹنگ کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یاد دہانی کراتی ہے کہ 9 مئی کے مجرموں سزا ہر صورت ملے گی۔ یعنی دونوں طرف سے کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ عمران خان اپنی ضد چھوڑیں اور کسی پائیدار حل کے لیے سیاستدانوں سے بات چیت کریں۔ مگر تحریک انصاف اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور جن کے ساتھ ان کی لڑائی ہے انہی سے مذاکرات کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطّار کے لونڈے سےدوا لیتے ہیں