آزاد کشمیر کا سیاسی منظر نامہ اخلاقی اور قانونی بحرانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے ارکان، جنہوں نے پارٹی سے علیحدگی کا دعویٰ کیا اور فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کیا، درحقیقت موجودہ حکومت کی قیادت کرتے ہوئے ابھی تک اس سے باضابطہ طور پر وابستہ ہیں۔ یہ دوغلا پن حکومت اور اسمبلی دونوں کی قانونی و اخلاقی حیثیت کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا کیے ہوئے ہے، خاص طور پر جب سے نئی انتظامیہ 20 اپریل 2023 کو تشکیل دی گئی تھی۔
آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جن 23 ارکان نے موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے سربراہی میں 20 اپریل 2023 کو اپنی جماعت سے الگ ہوکر فاروڈ بلاک قائم کرنے کا دعویٰ کرکے پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی تھی وہ تمام اراکین اب بھی سرکاری طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
پی ٹی آئی سے ’علحیدگی‘کے بعد انوارالحق کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے اسمبلی سے ایک متنازع قانون بھی منظور کرایا جس کے تحت وفاداریاں تبدیل کرنے کو جائز قرار دیا گیا لیکن سرکاری ریکارڈ میں منحرف اراکین اب بھی پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس دوران 25 جون 2023 کو 27 اراکین پر مشتمل کابینہ تشکیل دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
31اکتوبر 2023 کو کابینہ اراکین کو پورٹ فولیو الاٹ کیے گئے، پھر 17 نومبر 2023 کو کابینہ میں توسیع کی گئی۔ بظاہر منحرف اراکین جو وزیر مقرر ہوئے اسمبلی کی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں حالانکہ کہ وزرا کی تفصیل اسمبلی کی ویب سائٹ پر 3 مرتبہ اپ ڈیٹ ہوئی۔ اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود 53 ارکان کی فہرست میں بھی منحرف ارکان کو پی ٹی آئی کے ارکان کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ منحرف اراکین نے الیکشن کمیشن کے ساتھ باضابطہ طور پر خود کو آزاد امیدوار ظاہر نہیں کیا۔
حال ہی میں ایک ’منحرف‘ وزیر نے پی ٹی آئی سے وفاداری کا دعویٰ کیا تھا، بعد میں اپنا بیان واپس لے لیا۔ پی ایم ایل این اور پی پی پی، پی ٹی آئی کو اپنی حریف جماعت سمجھتی ہے اور ان دونوں جماعتوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے اور یہ شرط رکھی کہ وہ چوہدری انوارالحق کو اسی صورت میں ووٹ دیں گے اگر وہ حمایتیوں سمیت پی ٹی آئی سی علحیدگی کا اعلان کریں گے۔
چوہدری انوارالحق نے پی پی پی اور پی ایم ایل ( این) ن کی شرط قبول کی اور ان کی سربراہی میں مخلوط قائم ہوئی۔ اگرچہ چوہدری انوارالحق اور ان کے ساتھیوں نے زبانی طور پر پر پی ٹی آئی سے الگ ہوکر فاروڈ بلاک بنایا لیکن سرکاری طور پر وہ سب آج بھی پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس طرح سے آزاد کشمیر میں اقتدار کی خاطر پرانا پاکستان، نیا پاکستان اور ہمارا پاکستان اکھٹے ہیں اور اقتدار کے ثمرات سے فیضاب ہورہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی میں خواجہ فاروق کی قیادت میں حزب مخالف کی بینچوں پر بیٹھے پی ٹی آئی اراکین نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس نے ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ اس صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور پی پی پی نے کشمیر میں اپنے حلقوں اور اسلام آباد میں اپنی قیادت دونوں کو دھوکا دیا۔ اس طرز عمل نے دنیا میں آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ کے حقیقی کردار سے پردہ اٹھا دیا ہے۔